• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جماعت ثانیہ کے بارے میں مختلف سوالات

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ(1) مسجدمیں جماعت ثانیہ کن شرائط کے ساتھ جائز ہے؟ (2)جماعت ثانیہ محلے کی مسجد میں بھی جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کتنی مرتبہ جماعت کروا  سکتے ہیں؟ (3)اور جماعت ثانیہ اذان اور اقامت کے ساتھ ہوگی کہ اذان واقامت کے بغیر ہوگی؟

(4)اگر مسجد محلہ میں غیر اہل محلہ نے جماعت سے نماز ادا کی ہو تو جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے؟ (5)اگر نماز اہل محلہ نے ادا کی ہے لیکن بغیر اذان واقامت کے تو جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔درج ذیل شرائط میں سے اگر کوئی شرط پائی جائے تو جماعت ثانیہ مکروہ ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں:

1۔مسجد محلے کی ہو اور عام رہ گزر پر نہ ہو ۔

2۔پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کہہ کر پڑھی ہو۔

3۔پہلی جماعت ان لوگو ں نے پڑھی ہو جو اس محلہ میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔

4۔دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت واہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے ۔یہ چوتھی شرط صرف امام ابویوسف ؒ کے نزدیک ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہیت رہتی ہے۔

لہذا اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے مثلا مسجد محلے کی نہ ہو (یعنی محلے میں ہونے کے باوجود اس کا امام اور نمازی متعین نہ ہوں بلکہ لوگ اپنی اپنی نماز پڑھتے ہوں یا چھوٹی چھوٹی جماعتیں کرواتے ہوں)یا مسجد عام راہ گزر پر ہو یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کہہ کر نہ پڑھی گئی ہو یا پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلے میں نہ رہتےہوں توبالاتفاق جماعت ثانیہ جائز ہےاور اگر دوسری جماعت اس ہیئت سے نہ ادا کی جائے جس ہیئت سے پہلی جماعت ادا کی گئی تھی(مثلا جس جگہ پہلی جماعت کا امام کھڑا تھا دوسری جماعت کا امام وہاں سے ہٹ کر کھڑا ہو )تو امام ابویوسفؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ جائز ہے جبکہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس صورت میں بھی مکروہ ہے اور اکثر اکابرین کا فتویٰ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر ہے تاہم کہیں مجبوری ہو تو امام ابویوسفؒ کے قول پر عمل کی گنجائش ہے۔

2۔3۔محلے کی مسجدجس کا امام اور نمازی معلوم ومتعین ہوں اس  میں جماعت ثانیہ مکروہ ہےچاہے ایک مرتبہ ہو یا کئی مرتبہ ہو البتہ نمبر1 کے ذیل میں کراہت کی جو شرائط مذکور ہیں ان میں سے کوئی مفقود ہو تو پھر جماعت ثانیہ جائز ہے خواہ ایک مرتبہ ہو یا کئی مرتبہ ہو۔جن صورتوں میں جماعت ثانیہ جائز ہے ان میں جہاں اذان دینے کی ضرورت ہو مثلا وہاں پہلے اذان نہ ہوئی ہو تو اذان واقامت کے ساتھ جماعت ثانیہ ہوگی ورنہ محض اقامت کے ساتھ ہوگی۔

4 ۔ محلہ کی مسجد میں پہلی جماعت غیر اہل محلہ نے پڑھی ہوتو  جماعت ثانیہ جائزہے۔

5 ۔ اگر نماز اہل محلہ نےادا کی ہے لیکن بغیر اذان واقامت کےادا کی ہے توپھر بھی جماعت ثانیہ جائز ہے۔

امداد الفتاویٰ  جلد1 صفحہ295 میں ہے:

قول محقق اور معتبر باعتبار موافقت فقہ و حدیث درباۂ جماعت ثانیہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟ مگر بحوالۂ احادیث اور اقوال فقہاء و نیز بحوالۂ کتب تحریر ہواور نیز قطع نظرحالت موجودہ لوگوں کے بلکہ نفس مسئلہ محقق ہو۔ اور اگر حالت موجودہ لوگوں کے اعتبار سے جماعت ثانیہ کی کراہت ہو تو اس کے لئے علیحدہ ارقام ہو، ہندو ستان کے محقق علماء مثل حضرت مولانا مولوی شیخ محمد صاحب تھانوی و حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری و حضرت مولانا مولوی سعادت علی صاحب سہارنپوری و جناب مولانا مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی و جناب مولوی مشتاق احمد صاحب سہارنپوری وجناب مولوی سید جمال الدین صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بلاکراہت جائز فرماتے تھے، مگر غالب گمان یہ ہے کہ جو لوگ جماعت اولی کے پابند ہوں ان کے لئے بلاکراہت فرماتے تھے ؟

الجواب:في جامع الاٰثار لهذا العبد الحقیر : هكذا كراهةتکرار الجماعة في المسجد عن أبي بکرۃ أن رسول اللّٰه ﷺ أقبل من نواحي المدینة یرید الصلوٰۃ، فوجد الناس قد صلوا فمال إلی منزله، فجمع أهله فصلٰی بهم۔ رواہ الطبراني في الکبیر، والاوسط وقال الهیثمي: رجاله ثقات  قلت: ولو لم یکرہ لما ترک المسجد، وعن إبراهیم النخعي قال: قال عمررضي الله عنه: لا یصلی بعد صلوٰۃ مثلها۔ رواہ ابن أبي شیبة قلت: وأقرب تفاسیرہ حمله علی تکرار الجماعة في المسجد، وعن خرشة بن الحر أن عمرکان یکرہ أن یصلی بعدصلوٰۃ الجمعه مثلها۔ رواہ الطحاوي  وإسنادہ صحیح، قلت: دل علی کراهة تکرار الجماعة خاصة، وفي حاشیته: تابع الاٰثار وما ورد من قوله علیه السلام: من یتصدق  لایدل علی جواز التکرار المتکلم فیه، وهواقتداء المفترض بالمفترض إذا الثابت به اقتداء المتنفل بالمفترض ولایحکم بکراهته، بل ورد في جوازہ حدیث آخر من قوله علیه السلام: إذا صلیتما في رحالکما، ثم أتیتما صلوٰۃ قوم فصلیا معهم، واجعلا صلوٰتکما معم سبحة کما ھو ظاهر، وما ھو رواہ البخاري تعلیقا عن أنس رضي الله عنه  محمول علی مسجد الطریق أو نحوہ لما نقل فیه أنه أذن وأقام وھومکروہ عند العامة۔ اٰھ أما الروایات الفقهیة في هذا الباب، ففي الدرالمختار: ویکرہ تکرار الجماعة بأذان وإقامةفي مسجد محلةلا في مسجد طریق، أو مسجد لا إمام له، ولا مؤذن، وفي ردالمحتار: قوله ویکرہ، أی تحریما لقول الکافي لا یجوز، والمجمع لایباح، و شرح الجامع الصغیر: إنه بدعة کما في رسالة السندي قوله: بأذان وإقامة عبارته في الخزائن أجمع مما ههنا ونصها یکرہ تکرارالجماعةفي مسجد محلة بأذان وإقامة إلا إذا صلی بهما فیه أولاً غیر اهله أوأهله، لکن بمخافتة الأذان، ولو کرر أهله بدونهما أوکان مسجد طریق جاز إجماعاً، کما في مسجد لیس له إمام ولا مؤذن، ویصلی الناس فیه فوجاً فوجاً، فإن الافضل أن یصلی کل فریق بأذان وإقامة علی حدۃ، کما في أمالی قاضی خان اٰھ۔ ونحوہ في الدرر: والمراد بمسجد المحلة ماله إمام وجماعة معلومون کما في الدرر وغیرهما إلی أن قال: ولأن في الاطلاق هكذا تقلیل الجماعة معنی فانّهم لایجتمعون إذا علموا أنها لا تفوتهم، ثم قال بعد سطر: ومقتضیٰ هذاالاستدلال کراھۃ التکرار في مسجدالمحلة ولو بدون أذان، ویؤیدہ ما في الظهیریة لودخل جماعة المسجد بعد ماصلی فیه أھله یصلون وحدانا، وھو ظاهر الروایة۔ اٰھ۔ وھذا مخالف لحکایة الإجماع المارۃ۔ (ج۱ص۵۷۷ ) وفیه مانصه، وفي اٰخرشرح المنیة، وعن أبی حنیفة: لوکانت الجماعة أکثر من ثلاثة یکرہ التکرار وإلا فلا، وعن أبي یوسف إذا لم تکن علی الهيئة الأولیٰ لاتکرہ وإلا تکرہ وهوالصحیح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، کذا في البزازیة، وفي التاتارخانیة عن الولوالجیة: وبه ناخذ۔  وفیه قوله: إلا في المسجد علی طریق ھو مالیس له إمام ومؤذن راتب فلایکرہ التکرار فیه بأذان وإقامة، بل ھو الأفضل۔ (خانیة،ج۱ص۴۱۰)

روایات فقہیہ مذکورہ سے چند صورتیں اور ان کے احکام معلوم ہوئے۔ صورت اولیٰ :مسجد محلہ میں غیر اہل نے نمازپڑھ لی ہو۔ صورت ؔثانیہ مسجد محلہ میں اہل نے بلا اعلان اذان یا بلااذان بدرجۂ اولیٰ  نمازپڑھی ہو۔ صورتؔ ثالثہ وہ مسجد طریق پر ہو۔ صورتؔ رابعہ اس مسجد میں امام ومؤذن معین نہ ہوں صورت خامسہؔ مسجد محلہ ہو، یعنی اس کے نمازی اور امام معین ہوں اورانہوں نے اس میں اعلان اذان کی صورت سے نمازپڑھی ہو۔ پس صور ت اربعہ اولیٰ میں تو بالاتفاق جماعت ثانیہ جائز بلکہ افضل ہے، جیسا کہ افضلیت  کی تصریح موجود ہے۔ اور صورت خامسہ  میں اگرجماعت ثانیہ بہیئت اولیٰ ہو تب بالاتفاق مکروہ تحریمی ہے، جیسا کہ ’’درمختار‘‘میں تحریمی ہونے کی تصریح ہے۔ اور اگرہیئت اولیٰ پر نہ ہو پس یہ محل کلام ہے۔ امام ابویوسفؒ کے نزدیک مکروہ نہیں اورامام صاحب کے نزدیک مکروہ ہے، جیسا ظہیر یہ میں اس کا ظاہر روایت ہونا مصرّح ہے؛ البتہ ایک روایت  امام صا حب سے یہ ہے کہ اگرتین سے زیادہ آدمی ہوں تو مکروہ ہے ورنہ مکروہ نہیں ۔ یہ توخلاصہ ہوا روایات کے مدلول ظاہری کا۔ اب آگے دو مسلک ہیں یا تو امام صاحبؒ اورامام ابویوسف کے اقوال کو متعارض کہاجاوے یا دونوں میں تطبیق دی جاوے، اگرمتعارض کہاجاوے تو حسب رسم المفتی:

 واختلف فیما اختلفوا فیه، والأصح کما في السراجیة وغیرها أنه یفتی بقول الإمام علی الإطلاق، ثم بقول الثاني إلی قوله- وصحح في الحاوي القدسي قوۃ المدرک الخ، هكذا في الدرالمختار

امام صاحب کے قول پر عمل ہوگا، اگرسراجیہ کے قاعدہ کو ترجیح دی جاوے تب تو ظاہر ہے۔ اور اگر حاوی قدسی کے قاعدہ کو ترجیح دی جاوے تب بھی امام صاحب کی دلیل نقلی حدیث ہے جواول نقل ہوئی ہے۔ اور دلیل قیاسی ردالمحتار سے ’’ولأن في الإطلاق الخ‘‘ معلوم ہوچکی ہے، جس کی قوت ظاہر ہے۔ اور جو حدیثیں امام صاحب کی دلیل سے ظاہراً متعارض ہیں ، ان سب کا جواب کافی شافی جامع الاثار سے گزرچکا ہے۔ اور اگربعض کی حکایت اجماع علی الجواز سے شبہ ہو کہ امام صاحبؒ نے حکم بالکراہتہ سے رجوع کرلیا ہوگا تو شامی نے بعد نقل روایت ظہیریہ کے عدم ثبوت اجماع کی تصریح کردی ہے، پس یہ استدلال قطع ہوگیا۔ اور اگرامام صاحبؒ اورابویوسفؒ کے اقوال میں تطبیق دی جاوے تو وجہ تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ امام صاحبؒ تو کراہت تنزیہیہ کے مثبت ہیں اور امام ابویوسفؒ کراہت تحریمیہ کے نافی ہیں ، قرینہ اس کا یہ ہے کہ ’’درمختار‘‘ میں جو مسجد محلہ میں اذان کے ساتھ جماعت ثانیہ کو مکروہ کہا ہے، اس میں شامی نے تصریح کردی کہ کراہت تحریمیہ مراد ہے، پس اس کے مقابلہ میں جو دوسری صورتوں میں عدم کراہت کا حکم ہوگا، اسی کراہت مذکورہ کی نفی ہوگی، پس کراہت تنزیہیہ کی نفی محتاج دلیل مستقل ہے، جیسا کہ صوراربعہ اولیٰ میں افضلیت کی تصریح بالاستقلال کراہت تنزیہیہ کی نفی پر دال ہے، پس صوراربعہ اولیٰ میں نفی کراہت سے کراہت تحریمیہ منتفی ہوگئی اورحکم افضلیت سے کراہت تنزیہیہ منتفی ہو گئی اور مندوبیت ثابت ہوگئی، بخلاف صورت متکلم فیہا کے کہ اس میں انتفاء کراہت تحریمیہ کی دلیل تو قائم ہے؛ لیکن انتفاء کراہت تنزیہیہ کی کوئی دلیل نہیں ۔ اورظاہر روایت میں کراہت کا اثبات ہے، پس کراہت تحریم منتفی ہوئی اور کراہت تنزیہ ثابت رہی۔ پس امام صاحب کے اثبات اور امام ابویوسفؒ کی نفی میں کوئی تعارض نہ رہا۔ اور اگریہ شبہ ہو کہ جاز اور یباح وغیرہ عبارات سے کراہت تنزیہیہ منتفی معلوم ہوتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ جائز کبھی مکروہ کو بھی شامل ہوتا ہے۔ کذا فی ردالمحتار صفحہ۱۲۵ج۱  ۔اور جیسا درمختار میں اذان صبی کو جائز بلاکراہت کہا ہے۔ اور شامی نے کہا ہے کہ مراد نفی کراہت تحریمیہ کی ہے اور تنزیہی ثابت ہے ۔ (صفحہ ۴۰۶ ج۱) ونیز حکایت اجماع جس میں تقدیر تعارض پر کلام ہوا ہے، اس تقریر تطبیق پربحالہا رہ سکتی ہے کہ نفی کراہت تحریمیہ پر اجماع ہے اور اگرثبوت کراہت تنزیہیہ سے قطع نظر بھی کی جاوے اوراباحۃ بالمعنی المتبادر مان لی جاوے تب بھی چونکہ ندب واستحباب نہ دلیل سے ثابت نہ ابویوسف رحمۃ اﷲ علیہ سے منقول؛ اس لئے نفی کراہت سے ثبوت ثواب کالازم نہ آوے گا جیسا ردالمحتار میں جماعۃ فی التطوع میں صرف مسنون نہ ہونے سے ثواب کی نفی کی ہے، گو بعض صورتوں میں مباح بھی ہے ۔(صفحہ ۷۴۱ج۱) پس غایۃ مافی الباب ایک فعل مباح ہوا، جس میں نہ ثواب نہ عقاب۔ اورامام صاحب کراہت کے قائل تب بھی اسلم اوراحوط اس کا ترک ہی ہوا؛ کیونکہ فعل میں تو احتمال کراہت کا ہے اور ترک میں کوئی ضرر محتمل نہیں حتی کہ حرمان ثواب بھی نہیں ۔ پس ترک ہی راجح ہوا ،یہ سب تحقیق ہے باعتبار حکم فی نفسہ کے۔ اور اگرمفاسد اس کے امام ابویوسفؒ کے روبروپیش کئے جاتے تو یقینا کراہت شدیدہ کاحکم فرماتے؛ لیکن چونکہ مسئلہ مختلف فیہا ہے اور علماء کے فتوے بھی مختلف ہیں ؛ اس لئے کسی کو کسی پر نکیر شدید وطعن زیبانہیں ۔

امدادالاحکام جلد 1 صفحہ 497 میں ہے:

سوال: ہمارے اطراف میں اکثر جماعت کے ساتھ نماز پنج وقتی بعض جگہوں میں پڑھی جاتی ہے،اور بلا تنخواہ کے امام بھی امامت کے لئے نامزد رہتے ہیں ، گو مؤذن کئی ایک ہوا کرتے ہیں ،تو آیا جماعت اولیٰ کے بعد ایسی جگہوں میں جماعت ثانیہ حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے،تحریمی یا صرف مکروہ یا کچھ بھی نہیں ؟

الجواب:قال في الشامية يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة باذان واقامة الا اذا صلى بهما فيه اولا غير اهله او اهله لكن بمخافتة الاذان ولو كرر اهله بدونها او كان مسجد طريق جاز اجماعا كما في مسجد ليس له امام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا فان الافضل ان يصلي كل فريق باذان واقامة علحدة كما في امالي قاضي خان .وقدمنا في باب الاذان عن اخر شرح المنية عن ابي يوسف انه اذا لم تكن الجماعة علي الهيئة الاولى لا تكره والا تكره وهو الصحيح وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى وفي التاتارخانية عن الولوالجية وبه نأخذ ۱ھ

ان عبارات سے معلوم ہوا کہ بصورت مذکورہ مسجد محلہ میں جس میں امام ومؤذن مقرر ہیں جماعت ثانیہ مکروہ ہے مگر بتغییر ہیئت امام ابویوسفؒ کے قول پر گنجائش ہے، لیکن ہمارے مشائخ نے انتظام عوام کے لئے اس پر فتویٰ نہیں دیا بلکہ مسجد محلہ میں جہاں امام ومؤذن مقرر ہوں مطلقا کراہت کا فتویٰ دیا ہے۔

امداد الاحکام جلد 1 صفحہ541 میں ہے:

سوال :جماعت ثانیہ جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب : محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ ہے۔

مسائل بہشتی زیور جلد 1 صفحہ 189 میں ہے:

ہر فرض کی دوسری جماعت ان چار شرطوں سے مکروہ تحریمی ہے۔

۱۔مسجد محلے کی ہو اور عام راہ گزرپر نہ ہو اور مسجد محلہ کی تعریف یہ لکھی ہے کہ وہاں کا امام اور وہاں کے نمازی معین ہوں۔

۲۔پہلی جماعت بلند آواز سےاذان واقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو۔

۳۔پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلہ میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔

۴۔دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت اور اہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے اور یہ چوتھی شرط صرف امام ابویوسفؒ کے نزدیک ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہیت رہتی ہے۔پس اگر دوسری جماعت مسجد میں ادا نہ کی جائے بلکہ گھر میں ادا کی جائے تو مکروہ نہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شرط ان چار شرطوں میں سے نہ پائی جائے مثلا مسجد عام راہ گزر پر ہو، محلے کی نہ ہو تو اس میں دوسری بلکہ تیسری اور چوتھی جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کرکے نہ پڑھی گئی ہو تو دوسری جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی جو اس محلے میں نہیں رہتے نہ ان کو مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔ یا بقول امام ابویوسف ؒ کے دوسری جماعت اس ہیئت سے ادا نہ کی جائے جس ہیئت سے پہلی ادا کی گئی ہے۔یعنی جس جگہ پہلی جماعت کا امام کھڑا تھا دوسری جماعت کا امام وہاں سے ہٹ کر کھڑا ہو تو ہیئت بدل جائے گی اور جماعت مکروہ نہ ہوگی۔

تنبیہ: اگرچہ بعض لوگوں کا عمل امام ابویوسفؒ کے قول پرہے لیکن امام ابوحنیفہؒ کا قول دلیل سے بھی قوی ہے اور حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کیونکہ لوگوں میں دین کے معاملہ میں سستی کریں گے کہ ہم دوسری جماعت کرلیں گے اور اس سے پہلی اصل جماعت کم ہوجائے گی اور اس کا سبب چونکہ دوسری جماعت بنے گی لہذا وہ مکروہ تحریمی ہے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد 3 صفحہ  38 میں ہے :

سوال : جماعت ثانی محلہ کی مسجد میں جائز ہے یا نہیں اگر جائز نہیں ہے تو عدم جواز کی کیا دلیل ہے۔امام ابویوسفؒ جائز کہتے ہیں اور اس قول کو اکثر فقہاء نے صحیح کہا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟

الجواب: مسجد محلہ میں جماعت ثانیہ مکروہ ہے۔

 قال المحقق الشامي ولنا انه عليه الصلوة والسلام كان خرج ليصل بين قوم فعاد الي المسجد وقد صلى اهل المسجد فرجع الى منزله فجمع اهله وصلى بهم ولو جاز ذلك لما اختاروا الصلوة في بيته على الجماعة في المسجد ولان في الاطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى فانهم لا يجتمعون اذا علموا انها لا تفوتهم الخ ومثله في البدائع وغيره ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون اذان ويؤيده مافي الظهيرية لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه اهله يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية۔

اس روایت سے کراہت کا صحیح وراجح ہونا معلوم ہوگیا۔ کیونکہ یہ ظاہرالروایۃ ہے۔ پس امام ابویوسفؒ کی روایۃ ظاہرالروایۃ کے مقابلہ میں معمول بہا نہ ہوگی۔ اور نیز جب کہ کراہت وعدم کراہت میں تعارض ہو تو کراہت کو ترجیح ہوتی ہے۔ كما بين موضعه۔

کفایت المفتی جلد 3 صفحہ 134 میں ہے:

سوال :   جماعت ثانیہ جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب:  جماعت ثانیہ اگر جماعت اولیٰ کی ہئیت پر ہو اور ایسی مسجد میں ہو کہ جس میں جماعت معینہ ہوتی ہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر بہ تبدیل ہئیت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے  اور لفظ  لابأس یا  لفظ جواز مکروہ تنزیہی کے منافی نہیں ۔

کفایت المفتی جلد 3 صفحہ 139 میں ہے:

سوال :محلہ  میں ایک مسجد ہے جس میں امام  ومؤذن مقرر ہیں اور مصلیین بھی معین و معلوم ہیں وقت پر بلاناغہ نماز ہوتی ہے اور ہوتی چلی آئی ہے  اب کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے علیحدہ جماعت ثانیہ کرنے کا ارادہ کیا ہے جو جماعت اولیٰ کی طرح بلا  ناغہ پانچوں وقت اقامت کے ساتھ بالا لتزام و تداعی اور پابندی وقت کے ساتھ ہوا کرے گی اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس قسم کی جماعت ثانیہ کرنا جائز ہے  اور شریعت مقدسہ اور فقہ حنفی  میں اس کی اجازت ہوسکتی ہے فقہ میں اگر کہیں جماعت ثانیہ کے لئے لا باس یا  لم یکن علی الھیئۃ الاولیٰ وغیرہ بیان کیا ہے اس سے جماعت ثانیہ اتفاقیہ گاہ بگاہ مراد ہے یا  بالتداعی و بالا لتزام درمختار یا فتویٰ عالمگیری میں جو اجازت دی ہے تو کیا اس سے اس قسم کی اجازت مراد ہے ۔

الجواب:  جس  مسجد میں  کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام و انتظام سے ہوتی ہو اس میں امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے کیونکہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے  اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نماز کی ایک ہی جماعت مطلوب ہے حضور انور ﷺ کے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ و صحابہ کرام ؓ کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ  اور رواج نہیں تھا دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے اس لئے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا  اور اجازت نہ دی اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعت اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس شرط سے اجازت دی کہ وہ اذان و اقامت  کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کے ساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لئے تداعی یعنی لوگوں کو بلانا اور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں نہ اس کے لئے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے۔

فتاویٰ محمودیہ جلد 22 صفحہ 81 میں ہے:

سوال :یہاں کے ایک عالم نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیاہے:

مسجد میں ایک دفعہ جماعت مع اذان واقامت ہوچکی ہو توپھر اس میں دوسری جماعت کرنا کیساہے؟

الجواب: اگریہ مسجد محلہ کی ہوجس میں امام ومؤذن اورنمازی معین ہیں توجماعت ثانی محراب سے ہٹ کر بغیر دوسری اذان کے بالاتفاق وبالاجماع جائز ہے دوسری اذان کے ساتھ اس مسجد میں جماعت ثانی مکروہ تحریمی ہے اگر یہ مسجد ایسی ہے جس میں نہ امام مقررہے نہ مؤذن نہ نمازی تو اس میں دوسری اذان کے ساتھ جماعت بلاکراھت درست ہے (عالمگیری شامی) دریافت یہ کرنا ہے کہ جماعت ثانی مسجد کے اندر بالاتفاق وبالاجماع جائز ہے یا نہیں یا مسجد کے باہر۔

الجواب : اگر مسجد میں امام مؤذن نمازی معین ہوں تو وہاں بعض حضرات نے جماعت ثانیہ کو بلا کراھت درست لکھا ہے ، جبکہ ہیئت اولیٰ پر نہ ہو یعنی بلا اذان وبلا اقامت کے ہو اور اس پر اجماع بھی ہے پھر بعض حضرات نے فرمایا کہ اگر محراب چھوڑ کر دوسری جگہ جماعت کی جائے تو وہ بھی ہئیت اولیٰ پر نہ ہوگی ۔ (علامہ شامی نے درمختار۱؂ ص۳۵۰؍ج۱، ص۲؂ ۳۶۷) میں اس مسئلہ کو ذکر کر کے پوری بحث کی ہے اوراخیر میں لکھا ہے۔

 ومقتضی هذا الاستدلال کراہۃ التکرار فی مسجد المحلة ولو بدون اذان ویؤیدمافی الظهیریة لودخل جماعة المسجد بعد ماصلی فیه اهله یصلون وحدانا وهو ظاهر الروایة ۱ھ( شامی نعمانیہ۳؂ ص۳۷۱؍ج۱)

جس سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی مسجد میں جماعت ثانیہ بہر صورت مکروہ ہے خواہ ہیئت اولیٰ پرہویا نہ ہویہی ظاہر الروایہ ہے البتہ اگر ہیئت اولیٰ پر ہوتوکراہت شدیدہ ہے ورنہ خفیف ہے اس مسئلہ پرعلماء نے مستقل رسائل بھی تصنیف کئے ہیں۔

خیر الفتاویٰ جلد2 صفحہ 344 میں ہے:

سوال: جس مسجد میں امام اور نمازی متعین ہوں وہاں جماعت ثانیہ کرانا ازروئے شریعت کیسا ہے؟

الجواب: مسجد محلہ میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے۔مسجد محلہ کی تعریف یہ ہے کہ جس کے نمازی اور امام متعین ہوں۔

اما مساجد المحلة وهي مالها امام وجماعة معينون ( الفقه على المذاهب الاربعة : ج 2 ص 436 )

یہ کراہت تب ہے جب اہل محلہ نے اس مسجد میں اعلان اذان کے ساتھ نماز پڑھی ہو۔اور اگر اہل محلہ نے بلا اعلان اذان یا بلا اذان جماعت کرالی ہو تو اس صورت میں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔

عن ابي بكرة رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل من نواحي المدينة يريد الصلوة وقد صلوا فمال الى منزله فجمع اهله فصلى بهم رواه الطبراني في الكبير والاوسط

اگر جماعت ثانیہ مکروہ نہ ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں دوبارہ جماعت سے نماز ادا فرماتے ۔ آنحضرتﷺ کا اہل کرام کو جمع کرکے گھر جماعت فرمانا واضح دلیل ہے اس بات پر کی مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد دوبارہ جماعت مکروہ ہے۔

يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة (درمختار) قال الشامي عبارته في الخزائن اجمع مما هنا ونصها يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة باذان واقامة الا اذا صلى بهما فيه اولا غير اهله او اهله لكن بمخافتة الاذان ولو كرر اهله بدونها او كان مسجد طريق جاز اجماعا(شامي ج1 ص 408)

وروي عن انس رضي الله تعالى عنه ان اصحاب رسول الله ﷺ كانوا اذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى (شامي ج 1 ص 260 )

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved