- فتوی نمبر: 30-275
- تاریخ: 30 نومبر 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
کیا فرماتےہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا علاقہ*** شہر کے مضافات میں شمارہوتا ہے اور شہر سے تقریباً پانچ کلو میٹر مسافت پر ہے اور شہر سے تین راستے ہمارے گاؤں کو جاتےہیں ۔ہمارے علاقے میں تقریباً دوسوگھر اور دو ہزار کے قریب آبادی ہے اور یہاں جامع مسجد میں عرصہ دراز سے نماز جمعہ اداکی جاتی ہے اب گاؤں ہی کی حدود میں ایک کلومیٹر کےفاصلے پر ایک دینی مدرسہ ہےجس میں تقریباً 100 کے قریب طلباء وعملہ موجود ہے اورمدرسےکے دائیں بائیں پانچ سے سات گھروں کی آبادی ہے تو کیا اس مدرسےکی مسجد میں نماز جمعہ کی ادئیگی جائز ہے؟جبکہ گاؤں کے اندر جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادئیگی بھی جاری ہے۔
وضاحت(1)مدرسہ کا گاؤں سے کتنا فاصلہ ہے؟کیا درمیان میں خالی جگہ ہے؟مدرسہ بالکل الگ بناہواہے یا ساتھ میں کچھ گھر بھی ہیں اگر ہیں تو کتنے ہیں نیز مدرسہ کا جامع مسجد سے کتنا فاصلہ ہے ؟
جواب وضاحت:مدرسہ سے گاؤں کا فاصلہ تقریباًسات سو میٹر ہوگا،جی کچھ جگہ خالی ہےبیچ میں بعض مکانات بھی ہیں ، مدرسہ سےان مکانات کا فاصلہ مختلف ہے مثلاًایک مکان سومیٹر فاصلہ پر ہے پھر دوسرا مکان اس مکان سے دو سومیٹر فاصلہ پر ہے،
کچھ عرصہ پہلے تک الگ تھا اب پانچ سے سات مکان ساتھ ہیں ، جامع مسجد جہاں پہلے سےجمعہ ہوتا ہےمدرسہ سےتقریباً آٹھ سو میٹر فاصلہ پر ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ مسجد میں جمعہ کی نمازادا کرنا درست نہیں ۔
توجیہ:جمعہ کے صحیح ہونے کےلیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس جگہ جمعہ کی نماز ادا کی جائےوہ جگہ خود شہر یا بڑا قصبہ ہو یا بڑے قصبے کی فناء ہو،فناء سے مراد وہ جگہ ہے جو شہر یا قصبے کی ضروریات کےلیے تیار کی گئی ہو جیسے قبرستان،عید گاہ ،سرکاری سکول یا ہسپتال وغیرہ وغیرہ ۔مذکورہ مسجد نہ مذکورہ قصبہ میں داخل ہےکیونکہ مذکورہ مسجد قصبہ کی آبادی سے تقریباً 800 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور درمیان میں جگہیں بھی خالی ہیں اور نہ ہی اس کے فناء میں داخل ہے لہذا اس میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں۔
شامی (3/6تا9)میں ہے:
فى الدر المختار:(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر)…(او فناءه)….(وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجى.
وفى رد المحتار: (قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره………. فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ.
رالمحتار(3/6) میں ہے:
والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح.
بدائع الصنائع(1/585)میں ہے:
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
کفایت المفتی (3/249)میں ہے:
جمعہ کے مسئلے میں شہر سے مراد ایسی بستی ہے جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہوں تھانہ یا تحصیل اور ڈاکخانہ ہو کوئی عالم یعنی مسائل ضروریہ بتانے والا اور کوئی معالج موجود ہو ۔
امداد الفتاوی جدید(3/164)میں ہے:
فناء مصر کی تعریف یہ ہے کہ جس موضع سے مصر کے باشندوں کے مصالح واغراض متعلق ہوں کسی مقدار اور مسافت کی تحدید نہیں ہے۔ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں :
والتعريف أحسن من التحديد؛ لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر، وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر؛ لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منها على فراسخ من كل جانب نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدقا عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المعركة وكركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك.
کفایت المفتی (3/2259میں ہے:
سوال: بڑا گاؤں جس کو اہل علاقہ یعنی اس کے گرد و نواح والے بڑا گاؤں جانتے ہیں اور آبادی اس کی اس وقت ۱۲۵۴ آدمی شمار میں آئی ہے ایک مدرسہ اور کئی مسجدیں بھی اس گاؤں میں ہیں آیا ایسے گاؤں میں عند الفقہا جمعہ و عیدین جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا تو جروا ۔
جواب :دیہات میں جمعہ پڑھنا فقہائے حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ منجملہ شرائط صحت جمعہ کے مصر جامع یا فناء مصر ہے اور مصر جامع وہ جگہ ہے جس میں بازار ‘ سڑکیں اور ایسا حاکم موجود ہو جو غلبہ کے اعتبار سے ظالم سے مظلوم کا انصاف لے سکے…….. پس جو مقام کہ خود مصر ہو یا توابع مصر سے ہو اس میں جمعہ جائز ہے اور جو مقام ایسا نہیں ہے اس میں جمعہ جائز اور صحیح نہیں ہے توابع مصر وہی جگہ ہوسکتی ہے جس سے مصر کے تعلقات وابستہ ہوں اور ضروریات مصر وہاں سے بہم پہنچائی جاتی ہوں ان دو جگہوں کے علاوہ کسی اور جگہ کے باشندوں پر جمعہ فرض بھی نہیں اور نہ ان کے ادا کرنے سے ادا ہوگا ہندوستان میں جمعہ صرف ان جگہوں میں جائز ہے جہاں کوئی حاکم مجاز رہتا ہو کسی ایسی بستی میں جہاں کوئی حاکم مجاز نہ ہو جمعہ صحیح نہیں اور نہ وہاں کے باشندوں پر جمعہ فرض ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved