• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جانور کےفضلہ سے حاصل ہونے والی کافی کاحکم

استفتاء

کاپی لواک (Kopi Luwak)اور بلیک ایوری(Black ivory)کافی کی دواقسام ہیں   جن کے بیجوں   کو بالترتیب ایک بلی نما جانور (Civet)اور ہاتھی کے فضلے سے حاصل کیا جاتا ہے ۔اول الذکر زیادہ تر انڈونیشیا ،فلپائن ،ویت نام وغیرہ میں   تیار ہوتی ہے اور دوسری تھائی لینڈ میں   تیار کی جاتی ہے ۔یہ دونوں   منفرد ذائقے کی کافیاں   نہایت مہنگی ہیں  ۔

کاپی لواک(Kopi Luwak):

ایک بلی نما جانور جسے انگریزی میں  Civetکہتے ہیں   کافی کے پھلوں   کو کھاتا ہے کافی کا پھل دوچیزوں   پر مشتمل ہوتا ہے گودااور بیج (Beans Coffee)اس جانور کامعدہ گودے کو تو ہضم کرلیتا ہے لیکن اس کے بیج ہضم نہیں   کرپاتا جس کی وجہ سے یہ بیج اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہو جاتے ہیں   ۔ان بیجوں   کو فضلے سمیت جمع کرلیا جاتا ہے اس کے بعد کافی کے بیجوں   کو فضلے سے الگ کرکے اچھی طرح دھویا جاتا ہے دھونے کے بعد ان کو دھوپ میں   خشک کرکے بھون لیا جاتا ہے ۔اس کے بعد پیس کرپاؤڈر بنالیا جاتا ہے۔

بلیک آیوری (Bilack ivory):

اس کافی کے دانوں   کو ہاتھی کے فضلے سے حاصل کیا جاتا ہے اس مقصد کے لیے ہاتھی کی غذا میں   کافی کے پھل کوشامل کیا جاتا ہے ہاتھی کا معدہ بیجوں   کو ہضم نہیں   کرپاتا اور کافی کے بیج فضلے کے ساتھ خارج ہو جاتے ہیں   ان بیجوں   کو بھی فضلے سے الگ کرنے کے بعد دھو کر خشک کر لیا جاتا ہے ۔اس کے بعد آگ پر بھون کر پیس لیا جاتا ہے۔

یہ دونوں   قسم کی کافیاں   عام کافی کے مقابلے میں   منفرد ذائقے اور خوشبو کی حامل ہیں   عام کافی کڑوی ہوتی ہے جبکہ ان دونوں   میں   کڑواہٹ نہیں   ہوتی اور ان کا ذائقہ نہایت لذیذ اور پسندیدہ ہوتا ہے غذائی ماہرین کے مطابق ان بیجوں   میں   آنتوں   کے مخصوص درجہ حرارت کی وجہ سے کسی نہ کسی درجے میں   عمل تخمیر شروع ہو جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس میں   ان کے ذائقے میں   تبدیلی واقع ہوتی ہے البتہ خارج ہونے والے بیج بظاہر مکمل ہوتے ہیں   اور کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں   ہوتے اور بیجوں   میں   اگنے کی صلاحیت بھی باقی رہتی ہے۔واضح رہے کہ فقہ شافعی کے علماء نے ان دونوں  قسم کی کافی کے حلال ہونے کافتوی دیا ہے اور دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل عبارات ذکر کی ہیں  :

قال اصحابنا رحمھم اللہ اذا اکلت البہیمۃ حیا وخرج من بطنہا صحیحا فان کانت صلابتہ باقیۃ بحیث لو زرع نبت فعینہ طاہرۃ لکن یجب غسل ظاھرہ لملاقاۃ النجاسۃ لانہ وان صار غذا ء لھا فماتغیر الی الفساد فصار کما لو ابتلع نواۃ وخرجت فان باطنھا طاھر ویطھر قشرھا بالغسل وان کانت صلابتہ قد زالت بحیث لو زرع لم ینبت فھو نجس ذکر ھذاالتفصیل ھکذا القاضی حسین والمتولی والبغوی وغیرھم (المجموع شرح المھذب :573/2)

نعم لو رجع منہ حب صحیح صلابتہ باقیۃ بحیث لو زرع تبت کان متنجسا لانجسا ویحمل کلام من اطلق نجاستہ علی ما اذا لم یبق فیہ تلک القوۃ ومن اطلق کونہ متنجسا علی بقائھا فیہ کما فی نظیرہ من الروث وقیاسہ فی البیض لو خرج منہ صحیحا بعد ابتلاعہ بحیث تکون فیہ قوۃ خروج الفرخ ان یکون متنجسا۔(نھایۃ المحتاج :573/2)

ولو راثت او قاء ت بھیمۃ حبا فان تغیر عن حالہ قبل البلع ولو یسیرا فنجس والافمتنجس بحیث لو زرع تبت فیغسل ویؤکل ۔(حاشیۃ اعانۃ الطالبین)

دریافت طلب امر یہ ہے کہ فقہ حنفی کی رو سے جانور کے فضلے سے اگر بیج صحیح سالم باہر آئے تو اسے دھو کر استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں   ؟چاہے یہ استعمال غذا کے لیے ہو یا دوا کے لیے یا بدن پر خارجی استعمال کی شکل میں   ہو مثلا مرہم ،کریم وغیرہ میں   شامل کیا جائے۔برائے مہر بانی دلائل کے ساتھ جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں  ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جانور کے فضلے سے نکلے ہوئے بیچ اگر صحیح سالم ہوں   اور پھولے ہوئے نہ ہوں   تو فقہ حنفی کی رو سے بھی انہیں   دھو کراستعمال کیا جاسکتا ہے چاہے یہ استعمال غذا کے لیے ہو یا دوا کے لیے یا بدن پر خارجی استعمال کی شکل میں   ہو بہر صورت درست ہے۔

نوٹ:         فقہ حنفی کے بعض اقوال کے پیش نظر جانور کے فضلے میں   سے نکلنے والے بیچوں   سے متعلق اگر چہ یہ فرق بھی کیا گیا ہے کہ اگر بیج اونٹ ،بکری وغیرہ کی میگنیوں  میں   سے نکلے ہوں   تو انہیں   دھوکر استعمال کرسکتے ہیں   اور اگر گھوڑے ،گدھے وغیرہ کی لید میں   سے نکلے ہوں  یا گائے بھینس وغیرہ کے گوبرمیں   سے یہ بیج نکلے ہوں  تو دھو کربھی ان کاداخلی استعمال جائز نہیں   لیکن چونکہ ایسی کافی کے استعمال میں   عموم بلوی ہے اور شوافع کا قول بھی جواز کا ہے جو کسی اصولی اختلاف پر مبنی نہیں   اوریہ بھی یقینی نہیں   کہ مذکورہ جانوروں   کا فضلہ صلابت (سخت ہونے )میں   مینگنی کے مشابہ ہے یالید اور گوبر کے مشابہ ہے اس لیے مذکورہ صورت میں   فقہ حنفی کے دوسرے قول کو اختیار کیا گیا ہے جس کے مطابق بیج کے پھولنے نہ پھولنے پر مدار رکھا گیا ہے اور اس قول کو صحیح بھی کہا گیا ہے ۔

وايضا في الدرالختار(349/1)

شعير في بعر او روث صلب يؤکل بعد غسله وفي خثي لا

عيون المسائل للسمرقندي الحنفي(479)

اخراج الحبوب من البعر۔۔وروي عن محمد بن الحيين في ابل وغنم اعتلفت حنطة او شعيرا فبعرت فأخذها رجل واخرمنها الحنطة اوالشعير فغسلها فلابأس بأن يؤکل لوکان في روث الحمار او البغل او في ثلط البقر فلا يؤکل وان غسل ولابأس ان کان بعلف الدواب ۔قال الفقيه

عيون المسائل للسمرقندي الحنفي(480)

(243/1)البحر الرائق ۔هذا استحسان في الفرق بين البقر والابل والغنم وفي الظهيرية والشعير الذي يوجد في بعر الابل والشاة يغسل ويؤکل بخلاف مايوجد في خثي البقر لانه لا صلابة فيه

وايضا فيه (208/8)

وفي المحيط ولابأس بأکل شعير يوجد في بعر الابل والشاة فيغسل ويؤکل وان في احشاء البقر وروث الفرس لا يؤکل لان البعر صلب فلا تتداخل النجاسة في اجزاء الشعير والحنطة۔

لمافي الشامية(620/1)

في التاتر خانية :اذا وجد الشعير في بعر الابل والغنم يغسل ويجفف ثلاثا ويؤکل وفي اخثاء البقر لايؤکل قال في الفتح لانه لا صلابة فيه ثم نقل في التاتر خانية عن الکبري ان الصحيح التفصيل بالانتفاخ وعدمه ويستوي فيه البعروالخثي اه اي ان انتفخ لايؤکل فيهما والا اکل فيهما وبحث نحوه في شرح المنية وبماذکرناعلم ان قوله ’’صلب‘‘مرفوع صفة ثانية لشعيرفافهم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved