• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جازکیش، ایڈوانس اورجی پی فنڈ کے بارے میں سوال

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل Jazz کمپنی نے اپنے کسٹمر کو فری منٹس اور میسیجز کے لیے ایک سروس Jazz Cash کے نام سے متعارف کروائی ہے کہ اگر  ان کے Jazz Cash اکاؤنٹ میں کم از کم 1000(ایک ہزار روپے) رکھیں تو جیز کمپنی اپنے صارف کو روزانہ 30 منٹس اور اتنے ہی فری میسیجز دیتی ہے جبکہ اکاؤنٹ میں رقم بھی 1000 روپے رہتی ہے اور یہ سہولت بھی میسر ہے کہ صارف اپنی جمع کردہ رقم پوری کی پوری نکلوا سکتا ہے.پوچھنا یہ تھا کہ یہ سود تو نہیں.

2۔ایڈوانس بیلینس لینے پر کمپنی سروس چارجز کے نام پر 4 روپے زائد کاٹ لیتی ہے کیا ایڈوانس بیلینس لینا جائز ہے یا یہ سود ہے؟

3۔میں گورنمنٹ آفیسر ہوں میرا جی پی فنڈ ہر ماہ کاٹا جاتا ہے جبکہ  جمع ہونے والی رقم پر سالانہ کچھ پرسینٹ (فیصد)کے حساب سے اضافہ بھی لگتا ہے.کیا جمع ہونے والی رقم پر لگنے والا اضافہ سود تو نہیں.جبکہ گورنمنٹ کی پالیسی کے مطابق سارے ملازمین کے جی پی فنڈ  میں ایسا ہی اضافہ ہوتا ہے.

مہربانی فرما کر تحریری طور پر باقاعدہ اپنے دارالافتاء کی مہر کے ساتھ  فتوی جاری فرمائیں.تاکہ میں اس پر خود بھی عمل کر سکوں اور اپنے دوسرے احباب کو بھی ثبوت کے طور پر پیش کر سکوں.

وضاحت مطلوب ہے:1)جاز کیش میں ہزار روپے رکھنے کی آپ کی کوئی مجبوری ہے یاصرف ان منٹس کےلیے رکھنا چاہتے ہیں ؟(2)جی پی فنڈ اختیاری ہے یا جبری ؟

جواب وضاحت:1)جازکیش کا مقصد فری منٹ لینا ہے ۔(2)جبری ہے نیزدونوں پہلو جبری اور اختیاری کے بارے شرعی رہنمائی فرمادیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت سود کی ہے کیونکہ آپ کے ہزارروپے کمنپی کے ذمے قرض ہیں اورقرض سے فائدہ اٹھانا سود ہے۔

2۔ایڈوانس بیلنس لیناجائز ہے اوراس  پر کمپنی جو سروس چارجز کےطور پر 4روپے کاٹتی ہے وہ سود نہیں ہیں کیونکہ کمپنی جوبیلینس دیتی ہے وہ درحقیقت سروسز (خدمات)ہیں اورچونکہ یہ سروسز (خدمات)آپ نے ادھار لی ہیں اس لیے کمپنی نے گویا 15روپے کی سروسز(خدمات)کاریٹ 19روپے لگایا ہے۔

3۔مذکورہ صورت میں چونکہ حکومت کی طرف سے جی پی فنڈکی مد میں کاٹی جانے والی رقم جبری ہے اس لیے اس پر ملنے والی اضافی رقم سود نہیں ہے البتہ اگر اختیاری ہو تو اس میں سود کا شبہ ہے لہذا اس اضافی رقم کو لینے  سے اجتناب کیاجائےیا لے کراسے صدقہ کردیا جائے یہ افضل ہے تاہم اپنے استعمال میں لانے کی بھی گنجائش ہے۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

جواہرالفقہ جلد نمبر 3 صفحہ 277 میں ہے:

لہذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یک طرفہ عمل ہے ،کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعا معتبر نہیں ،اس لئے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی، خواہ محکمہ نے اسے سود کا نام لے کر دیا ہو ۔

احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے ۔تنخواہ محکمے کے جبر سے کٹوائی گئی ہویااپنے اختیار سے، دونوں صورتوں میں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں ،لیکن اختیاری صورت میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور یہ خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خواری کا ذریعہ بنا لیں، اس لئے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے ،اس سے اجتناب کیا جائے۔

مزید مفتی شفیع صاحب جلد 3 صفحہ 285 پر لکھتے ہیں:

مسئلہ: جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہرماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہےشرعا تینوں رقموں  کا حکم ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب درحقیقت تنخوہ ہی کا حصہ ہے ،اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں، لہذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاسود نہیں، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے اس پر جو رقم محکمہ بنام سود دے گا اس سے اجتناب کیا جائے۔

فتاوی عثمانی 278/3میں ہے:

سوال :پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:احتیاط تو اسی میں ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کے طور پر جو رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زیادہ رقم کوصدقہ کردیا جائے۔ لیکن شرعی نقطہ نظر سے یہ زیادہ کی رقم سود کے حکم میں نہیں ہے،اس لیے اسے اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔

فتاوی عثمانی(308/3)میں ہے:

جواب: پراویڈنٹ فنڈ پر جو زیادہ رقم محکمے کی طرف سے دی جاتی ہے وہ شرعا سود نہیں ہے۔لہذا اس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔جبری اور اختیاری فنڈ دونوں کا حکم یہی ہے ۔البتہ جو رقم اپنے اختیار سے کٹوائی گئی ہو اس پر ملنے والی زیادتی کواحتیاطا صدقہ کردیں تو بہتر ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved