- فتوی نمبر: 18-167
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ايك خاتون كے بارے میں سنا کہ کوئی بھاری یا بڑا کام گھر میں کرنے لگتی ہے تو کہتی ہے” کہ اے جنات میری مدد کرو میرے ساتھ اس کام میں۔ کیا میں تمہیں ایصال ثواب نہیں کرتی؟ “اور ان کا یہ معمول ہے کہ وہ جنات کو ایصال ثواب کرتی رہتی ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کہنے سے ان کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے ۔ایسا کہنے و کرنے کا شرعی کیا حکم ہے؟ایک صاحب زید مجدہم نے اس پر استمداد بغیر اللہ کا شبہ کیا ہے جبکہ دوسرے عالم صاحب نے کہا ہے کہ یہ جائز ہے۔خود حدیث پاک میں ہے کہ جب صحراء وغیرہ میں کسی کا اونٹ گم ہوجائے تو وہ یوں کہے اعینونی یا عباداللہ یہ بھی اسی طرح ہے۔اس میں سے درست بات کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ خاتون کا یہ عمل درست نہیں ،کیونکہ اولاً آباد جگہوں پر جنات کا ہونا یقینی یا ظن غالب کےدرجے میں کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں اور ثانیاً اگر کسی جگہ پر جنات کا ہونا کسی معتبر دلیل سے ثابت بھی ہو تو ان کامسلمان ہونا یقینی نہیں۔ اور ثالثاً ان کا کسی جگہ پر ہر وقت ہونا اور پکارنے والے کی پکار کو سننا کسی دلیل سے ثابت نہیں ۔باقی اعینونی عباداللہ سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں اول توعباداللہ سے مراد فرشتے یا رجال غیب ہیں ( جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے) اور اگر اس سے مسلمان جنات بھی مراد ہوں تو اس سے مراد صحراء وغیرہ ہیں جہاں جنات کے ہو نے کاظن غالب ہو۔اور اصولی بات یہ ہے کہ ایسی خلاف ظاہر باتوں کو ان کے مورد پر منحصر رکھا جائے ان پر مزید قیاس نہ کیا جائے۔
کفایت المفتی(2/149)میں ہے:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم کو کہیں کوئی مصیبت پڑے اور اس جگہ تم تنہا ہو کوئی دوسرا موجود نہیں تو اس طرح کہو کہ اے خدا کے بندو ہماری مدد کرو اور یہ حدیث طبرانی سے روایت ہے یہ بات مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہوئی اور مجھے خیال ہوا کہ ایسی باتوں کا بیان کرنا کیسا ہے اور کیا کوئی روایت ایسی ہے؟
جواب: حدیث يا عبادالله اعينوني الخ حصن حصین میں بروایت طبرانی مروی ہے مگر اس میں عباداللہ سے فرشتے یا مسلمان جن مراد ہیں جو انسان کی نظر سے مخفی مگروہاں قریب موجود ہوتے ہیں یا ان کا وجود مظنون ہے اور ان کو مدد کیلئے پکارنا اس تصور پر ہے کہ وہ پکارنے والے قریب سے اس کی آواز سن کر اس کی مدد کر سکتے ہیں جیسے انسان دوسرے مصیبت زدہ انسان کی فریاد سن کر اس کی مدد کر سکتا ہے۔فقط
فتاوٰی رشیدیہ(ص 150) میں ہے:
"بعض روایات میں جو آیا ہے اعینو نی عباداللّٰہ تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عبادا للہ جو صحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے تو وہ اس باب سے نہیں ہے اس سے حجت جواز پر لانا جہل ہے معنی حدیث سے "
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 331)میں ہے:
وفي الحصن وإن خاف من عدو وغيره فقراءة لإيلاف قريش أمان من كل سوء مجرب قال النووي رحمه الله في الأذكار هو من قول أبي الحسين القزويني الإمام السيد الجليل والفقيه الشافعي صاحب الكرامات الظاهرة والأحوال الباهرة والمعارف المتظاهرة وفي الحصن وأن أراد عونا فليقل يا عباد الله أعينوني ثلاثا رواه الطبراني عن زيد بن على عن عتبة بن غزوان عن النبي إنه قال إذا ضل أحدكم شيئا أو أراد عونا وهو بأرض ليس بها أنيس فليقل يا عباد الله أعينوني فإن لله عباد ألا نراهم قال بعض العلماء الثقات هذا حديث حسن يحتاج إليه المسافرون وروى عن المشايخ أنه مجرب قرن به التحجج
المعجم الکبیر للطبرانی)10/ 117)میں ہے:
عن عتبة بن غزوان : عن نبي الله صلى الله عليه و سلم قال : ( اذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا و هو بأرض ليس بها أنيس فليقل يا عباد الله أغيثوني يا عباد الله أغيثوني فان لله عبادا لا نراهم ) و قد جرب ذلك
كنز العمال (3/00 3)میں ہے:
إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد غوثا وهو بأرض ليس بها أنيس فليقل: يا عباد الله أغيثوني يا عباد الله أغيثوني فإن لله عبادا لا يراهم.(طب) عن عتبة بن غزوان.
الجامع لشعب الإيمان للبیہقی (1/ 325)میں ہے:
عن ابن عباس قال: ” إن لله عز وجل ملائكة سوى الحفظة يكتبون ما سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد أعينوا عباد الله يرحمكم الله تعالى "
الأذكار النووية لمحي الدين النووي (1/ 192)میں ہے:
روينافي كتاب ابن السني عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ” إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد : يا عباد الله احبسوا قال ابن علان في ” شرح الأذكار ” : قال الحافظ : حديث غريب ،أخرجه أحمد عن عمارة بن زاذان ، وأخرجه ابن السني من وجه آخر عن عمارة ، وهو ضعيف يا عباد الله احبسوا ، فإن لله عز وجل في الأرض حاصرا سيحبسه ”
قلت : حكى لي بعض شيوخنا الكبار في العلم أنه افلتت له دابة أظنها بغلة ، وكان يعرف هذا الحديث ، فقاله ، فحبسها الله عليهم في الحال ، وكنت أنا مرة مع جماعة ، فانفلتت منها بهيمة وعجزوا عنها ، فقلته ، فوقفت في الحال بغير سبب سوى هذا الكلام
البحر الزخار المعروف بمسند البزار (2/ 118)میں ہے:
حدثنا موسى بن إسحاق ، قال : حدثنا منجاب بن الحارث ، قال : حدثنا حاتم بن إسماعيل عن أسامة بن زيد عن أَبَان بن صالح عن مجاهدعن ابن عباس ، رَضِي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن لله ملائكة في الأرض سوى الحفظة يكتبون ما سقط من ورق الشجر فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد : أعينوا عباد الله.وهذا الكلام لا نعلمه یروى عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا اللفظ إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد.۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved