• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس بستی میں حنفیہ کے مطابق جمعہ کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں اس میں جمعہ کا حکم

استفتاء

ایک مسئلہ  میں آپ کی طرف سے رہنمائی درکار ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ضلع مظفرآباد میں ایک بڑا شہر ہے راؤلہ کوٹ جس سے تقریبا گیارہ کلو میٹر پر ایک گاؤں ہے ڈگ کلر،اس گاؤں میں دو مسجدیں پہلے سے ہیں اور اب ایک جگہ جامع مسجد کی تعمیر آخری مراحل میں ہے لیکن اس جگہ شرائط جمعہ حنفی مسلک کے مطابق پوری نہیں ہوتیں لیکن قوی امکان ہے کہ اگر ہم  نےحنفی مسلک کے مطابق مسئلہ کی وضاحت کی تو فتنہ کا ایک نیا باب کھل جائے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ مسجد اہل بدعت کی تحویل میں چلی جائے گی یا پھر غیر مقلدین کا تسلط ہو جائے گا وضاحت فرمائیں کہ اس صورت میں ہمارےلیے فقہاء اربعہ میں سےاپنے امام کی بجائے کسی دوسرے امام کی رائے اپناتے ہوئے اس فتنہ سے برات کی صورت اختیار کرنا جائز ہو گا ؟جبکہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار ہیں۔

تنقیح:اس گاؤں میں ایک بازار ہے جہاں سے معمولی استعمال کی چیزیں مل جاتی ہیں مثلا درزی کی دکان ہے لیکن کپڑے اور جوتےکی دکان نہیں ہے،تھانہ اور چوکی بھی نہیں ہے،اس گاؤں سے تقریبا ایک دو کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک دوسرا گاؤں ہے جہاں جمعہ ہوتا ہے لیکن اس گاؤں میں بریلوی جمعہ پڑھاتے ہیں۔ مسجد کا متولی جو تعمیر کروارہا ہے وہ اہل بدعت کی طرف بہت کافی مائل ہے ہم نے جمعہ شروع نہ کیا تو وہ مسجد اہل بدعت کی تحویل میں دیکر جمعہ شروع کروالے گا غیر مقلدین  مذکورہ گاؤں میں آٹھ دس ہیں لیکن اہل بدعت کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:(1)آپ کا اس جگہ سے کیا تعلق ہے؟وہاں کے رہائشی یہ مسئلہ خود کیوں نہیں پوچھ رہے؟(2)کیا اس جگہ پہلے بھی جمعہ ہو رہا ہے یا نہیں؟(3)اس جگہ کی آبادی،مسجدوں کی تعداد،کھانے پینے اور ضرورت کا سامان جیسے کپڑے،جوتے وغیرہ کی دکانیں،سکول،مدرسہ،تھانہ وغیرہ کی پوری تفصیل بھیجیں۔

جواب وضاحت:(1)ہمارا ایک ہی علاقہ ہے بازار والی مسجد سے پیدل دس منٹ کا راستہ ہو گا ،ہم لوگ آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔(2)وہ لوگ مسئلہ بھی مجھ سے ہی پوچھیں گے اس لیے تحقیق چاہتا ہوں۔(3)اس محلے میں بھی مسجد تو پہلی ہی ہےآبادی کے بارے میں کنفرم نہیں البتہ پچیس تیس گھر ہیں تقریبا ساٹھ، ستر بالغ مردہونگے،قریب ایک کریانہ سٹور ہے،سکول اس کے قریب نہیں ہے،بازار والی مسجد کے قریب تین چار سکول ہیں لیکن تھانہ تو بازار میں بھی نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ گاؤں میں حنفیہ کی شرائط کے مطابق جمعہ شروع کرنا جائز نہیں البتہ دیگر ائمہ کے نزدیک جہاں چالیس بالغ مرد ہوں وہاں جمعہ جائز ہے،مذکورہ صورت میں  جمعہ شروع نہ کرنے کی صورت میں مسجد کے اہل بدعت کی تحویل میں جانے کا قوی امکان ہے اس لیے مذکورہ گاؤں میں دیگر ائمہ کی شرائط کے مطابق جمعہ شروع کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی (3/8) میں ہے:

لا تجوز(أي الجمعة:از ناقل) في الصغيرة التي ‌ليس ‌فيها ‌قاض ‌ومنبر وخطيب كما في المضمرات.

فتاویٰ شامی (3/6) میں ہے:

قال في شرح المنية:والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه ‌بلدة ‌كبيرة ‌فيها ‌سكك ‌وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ

بدائع الصنائع (1/585) میں ہے:

وروي عن أبي حنيفة أنه ‌بلدة ‌كبيرة ‌فيها ‌سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.

مغنی لابن قدامہ: (2/207) میں ہے:

(مسألة) قال (وإذا لم يكن في القرية أربعون رجلا عقلاء لم تجب عليهم الجمعة) وجملته ان الجمعة إنما تجب بسبعة شرائط (احداها) أن تكون في قرية و (الثاني) ان يكونوا أربعين و (الثالث) الذكورية و (الرابع) البلوغ و (الخامس) العقل و (السادس) الاسلام و (السابع) الاستيطان وهذا قول أكثر أهل العلم، فاما القرية فيعتبر ان تكون مبنية بما جرت العادة ببنائها به من حجر أو طين أو لبن أو قصب أو شجر ونحوه فأما أهل الخيام وبيوت الشعر والحركات فلا جمعة عليهم ولا تصح.  لأن ذلك لا ينصب للاستيطان غالبا وكذلك كانت قبائل العرب حول المدينة فلم يقيموا جمعة ولا أمرهم بها النبي صلى الله عليه و سلم ولو كان ذلك يم يخف ولم يترك نقله مع كثرتهم وعموم البلوى به لكن إن كانوا مقيمين بموضع يسمعون النداء لزمهم السعي إليها كأهل القرية الصغيرة إلى جانب المصر ذكره القاضي ويشترط في القرية أيضا أن تكون مجتمعة البناء بما جرت العادة في القرية الواحدة فإن كانت متفرقة المنازل تفرقا لم تجر العادة به لم تجب عليهم الجمعة إلا أن يجتمع منها ما يسكنه أربعون فتجب الجمعة بهم ويتبعهم الباقون ولا يشترط اتصال البنيان بعضه ببعض وحكي عن الشافعي أنه شرط ولا يصح لأن القرية المتقاربة قرية مبنية على ما جرت به عادة القرى فأشبهت المتصلة.

الام  (1/350) میں ہے:

( قال الشافعي ) فإذا كان من أهل القرية أربعون رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حر ا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت والله تعالى أعلم إن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم.

کفایت المفتی (3/249) میں ہے:

سوال: بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ احتیاطی ادا کرنا کیسا ہے؟

الجواب: چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنفیہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تعریف میں یہاں تک تنزل کیا کہ ’’ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها‘‘ تک لے آئے حالانکہ ان کے اپنے اقرار ’’هذا يصدق علي كثير من القرى‘‘  سے یہ تعریف بہت سے قریٰ پر صادق آتی ہے پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved