• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس مسجد میں فجر اور عشاء کی نماز نہ ہوتی ہو اس میں جمعہ کی نماز کا حکم

استفتاء

مسجد سرکاری جگہ پر ہے یعنی اسٹیشن پر ہے جب کہ اسٹیشن ختم ہو گیا ہے ،ریلوے لائن کراس کر کے ایک مارکیٹ ہے جس میں ہر چھوٹی سے بڑی چیز موجود ہے ۔  مارکیٹ کے لوگ ظہر، عصر اور مغرب  کی نماز اسی مسجد میں پڑھتے ہیں اور دو وقت مارکیٹ بند ہوتی ہے۔ جب سےمسجد بنی ہے  اس وقت  سےجمعہ ہو رہا ہے جمعہ کی نماز وہاں پر تاخیر سے ہوتی ہے اس لیےجو لوگ دیگر  مساجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے  سے رہ جاتے ہیں تو وہ یہاں پر جمعہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور مارکیٹ والوں میں سے کچھ لوگ دوسری مساجد میں پڑھتے  ہیں اور کچھ یہاں پڑھنے  کیلئےآتے  ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب عشاءاور فجر کے وقت  نماز پڑھنے کے لیےکوئی نہیں آتا تو حافظ صاحب کہتے ہیں کہ جب کوئی نہیں آتا تو  میں بھی مدرسے میں نماز ادا کر لیتا ہوں  کیونکہ  آبادی دور ہے اور اسٹیشن پر ایک دو آدمی ہوتے ہیں لیکن وہ بھی نہیں آتے اور جب  کبھی کوئی نماز پڑھنے کیلیےآ جائے تو وہ حافظ صاحب کو کال کرتا ہے، حافظ صاحب کہتے ہیں کہ جب  میں پٹرول صرف کرکے آتا ہوں تو تم  نہیں  آتے،گھر پر یا اڈے والی مسجد میں پڑھ لوحضرت   یہ معاملہ ہے کیا ایسی صورت حال میں جمعہ میں  کوئی حرج تو نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) مذکورہ مسجد اور مارکیٹ آبادی کے اندر ہیں یا باہر یعنی ایک ہی آبادی شمار ہوتی ہے یا الگ الگ آبادی شمار ہوتی ہے؟ اور نام بھی الگ الگ ہیں؟ (2)جس جگہ مسجد ہے وہاں کی آبادی کتنی ہے؟ (3)نیز وہاں پرسکول، ڈاکخانہ، تھانہ وغیرہ ہیں یا نہیں؟ (4)مسجد اور مارکیٹ کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟

جواب وضاحت:(1) مسجد سرکاری جگہ پر ہے یعنی ریلوے اسٹیشن پر ہے اوراسٹیشن حبیب آباد ضلع پتوکی میں داخل ہے۔ اب اسٹیشن ختم ہوچکا ہے سٹیشن کےارد گرد سرکاری جگہ خالی پڑی ہے وہاں کوئی آبادی نہیں ہےکیونکہ وہ سٹیشن کی سرکاری زمین ہےجس کی وجہ سے کوئی تعمیر نہیں کرسکتا جہاں پر سرکاری زمین ختم ہوتی ہےوہاں سے آبادی شروع ہوتی ہے صرف  ایک طرف ریلوے  لائن کراس کرکے ایک آبادی ہے۔(2،3) ارد گرد کوئی آبادی نہیں ہے صرف ریلوے لائن کراس کرکے ایک محلہ ہےجو دو تین ایکڑ کے فاصلے پر واقع ہے،اس محلے میں ہر قسم کی ضروریات زندگی دستیاب ہیں۔ (4) ریلوے لائن کراس کرکے سامنے  مارکیٹ ہے، مسجد مارکیٹ والوں کے تعاون سے چلتی ہے، شام کو مارکیٹ بند ہوجاتی ہے، لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں، اسٹیشن پر بھی دو، تین آدمی ہوتے ہیں لیکن وہ مسجد نہیں آتے، دو، تین ایکڑ چھوڑ کر ایک محلہ ہے وہاں سے دو، تین آدمی نماز پڑھنے کے  لیے آتے ہیں اور دو، تین ایکڑ چھوڑ کر ایک اور بستی ہے وہاں سے بھی ایک ، دو آدمی آتے ہیں حالانکہ وہاں پر بھی  مساجد ہیں ۔

مفتی صاحب پوچھنا یہ  ہےکہ  جب  وہ آدمی  نماز پڑھنے نہیں آتے تو حافظ صاحب ناراض ہوجاتے ہیں کہ میں پیٹرول لگا کر آتا ہوں اور آپ لوگ نماز پڑھنے نہیں آتے اور کبھی حافظ صاحب نہیں آتے تو لوگ حافظ صاحب کو کہتے ہیں کہ آپ کیوں نہیں آئے؟ تو حافظ صاحب کہتے ہیں کہ کبھی کبھی تو نماز پڑھنے کے لیے آجاتے ہو اور پھر رعب جھاڑتے ہو اس لیے  اگر ہم لوگ ایسا کرلیں کہ ان  لوگوں کو چابی دیدیں کہ اگر فجر اور عشاء میں نماز پڑھنے کیلیے آنا چاہیں تو آجائیں ورنہ اپنی اپنی مساجد میں نماز پڑھ لیا کریں تو کیا ایسا کرنے سے (کہ  مسجد میں عشاء اور فجر کی نماز کبھی ہو اور کبھی  نہ ہو ) جمعہ کی نماز پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جمعہ ادا کرنا درست ہوگا یانہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ مسجد میں  جمعہ کی نماز صحیح ہے اس لیے کہ جمعہ صحیح ہونے کےلیے مسجد میں پانچ وقت کی نماز کا ہونا شرط نہیں لیکن بہتر ہے کہ مسجد میں پانچوں وقت کی نماز کی ترتیب قائم کی جائے۔

بدائع الصنائع (1/ 259)میں ہے:

‌وأما ‌الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

بدائع الصنائع  (1/ 260)میں ہے:

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة ‌فيها ‌سكك ‌وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.

شامی  (2/ 137)میں ہے:

والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة ‌فيها ‌سكك ‌وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ إلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك.انتهى.

شامی  (2/ 138)میں ہے:

وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات.

فتاویٰ محمودیہ (8/179) میں ہے:

سوال :موضع دیوکلی میں جمعہ کے سب شرائط ہیں، آبادی تین ہزار سے زائد ہے، مسلمانوں کے گھر چودہ سو کے قریب ہیں، یہاں ایک مسجد ہے جمعہ ہوتا ہے مگر مسجد میں پانچ وقت کی نماز نہیں ہوتی نہ جماعت کے ساتھ نہ بلا جماعت، کوئی آدمی آ گیا تو پڑھ لیا، مقامی لوگ نماز نہیں پڑھتے صرف جمعہ، عید، بقر عید ہوتی ہے ،ان حالات میں جمعہ صحیح ہو گا ؟ اور موضع پہاڑ پور کی آبادی پندرہ سو کے قریب ہوگی، چالیس گھر مسلمانوں کے ہیں، یہاں دو مسجدیں ہیں ، ۶،۵ دوکانات ہیں، مسجد میں جمعہ پہلے سے ہوتا آرہا ہے، پنج وقتہ نماز بھی کبھی جماعت سے کبھی بلا جماعت، جمعہ  میں تیس،چالیس آدمی شریک ہو جاتے ہیں؟

جواب: اگر دیوکلی میں جمعہ کے شرائط موجود ہیں یعنی گلی کوچہ محلے ہیں، ڈاک خانہ ہے، بازار ہے، ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے، تین ہزار کی مردم شماری ہے تو وہاں جمعہ بھی درست ہے اور عید بھی  مگر وہاں کے لوگوں کو لازم ہے کہ پانچوں وقت کی نماز کا بھی اہتمام کریں، کسی کو اذان و امامت کے لئے مقرر کر لیں اور سب نماز پڑھا کریں ورنہ سخت  و بال میں گرفتار ہوں گے اور سب پر نحوست طاری رہے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved