- فتوی نمبر: 21-389
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میں ایک فارما ڈسٹری بیوٹرکمپنی میں ملازمت کرتا ہوں،ہماری کمپنی ایک فارما کمپنی سے ادویات لے کر ہسپتال کی فارمیسی میں سپلائی کرتی ہے ،فارما کمپنی ہمیں صرف ہاسپٹل میں ادویات سپلائی کرنے کی اجازت دیتی ہےاور مارکیٹ میں سپلائی کرنے سے روکتی ہے اگر ہم مارکیٹ میں سپلائی کریں تو فارما کمپنی ہماری کمپنی کی ڈسٹری بیوشن بند کر دے گی اور ہمیں بلیک لسٹ کر دے گی ۔ہماری کمپنی کے سیل منیجر ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ زیادہ سیل کرو تو ہم ہسپتال کے نام پر جعلی آرڈر بنا کر کمپنی سے میڈیسن لے کر مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں جس کا سیل منیجر اور ہماری کمپنی کے مالک کو علم ہوتا ہے اور ان کی طرف سے ہی ہمیں اس طریقہ کار پر مجبور کیا جاتا ہے میرا (عبدالودود) کا وہاں کام یہ ہے کہ میں ہسپتال کے نام پر جعلی آرڈر بناتا ہوں اور اس پر ہسپتال کی جعلی اسٹیمپ لگاکر جعلی سیل ظاہر کرکے کمپنی کو بھیجتا ہوں اور پھر جو ادویات آتی ہیں وہ مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہیں ، تو میری سیلری (تنخواہ ) حلال ہے یا حرام؟ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں
تنقیح: میں نے اب یہ ملازمت چھوڑ دی ہے اب میں اپنا کام شروع کررہا ہوں وہاں میرے ذمے صرف یہی کام نہیں تھا بلکہ اور جائز کام بھی تھے جس کی تفصیل یہ ہے کہ میرا وہاں آرڈر بنانے اور مہریں لگانے سے متعلق ہی کام تھا تو کچھ آرڈر صحیح بھی ہوتے تھے اصل میرے ذمے وہی تھا لیکن ساتھ یہ کام بھی کرنا پڑتا تھا میں نے تقریبا 10 سال یہ ملازمت کی ہے اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ (1)اس نوکری کا کیا حکم ہے ؟(2)اور میری اتنے عرصے کی تنخواہ کا کیا حکم ہے ؟
بندہ محمد عبدالودود صدیقی
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) کسی نوکری کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس نوکری میں کیے جانے والے کام بھی جائز ہوں جبکہ مذکورہ نوکری میں ہسپتال کی طرف سے جعلی آرڈر بنا کر فارما کمپنی کو دینا بھی شامل ہے جو کہ دھوکہ دہی اور جھوٹ ہے نیز فارما کمپنی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی ہے لہذا مذکورہ نوکری ناجائزہے۔
2) جس قدر آپ کو مذکورہ ناجائز کام کرنا پڑتا تھا اس قدر تنخواہ بھی حلال نہیں ہے اس لیے کوشش کریں کہ اس سارے کا حساب کر کے آہستہ آہستہ بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں۔
امداد الفتاوی 7/448)ميں ہے:
سوال (۱۹۹۹) : قدیم ۳/ ۳۹۹- بعد سلام مسنون کے عرض ہے کہ کچہری کے ملازم جو کہ نقلیں کرنے پر مامور ہیں ، ان کی وہ ملازمت جائز ہے یا ناجائز ہے، اتنی بات ضرورقابل تحریر ہے کہ بعض نقل میں سود کا ذکر ہوتا ہے، اور بعض میں نہیں ، جبکہ تمام نقلیں سود کی اور بغیر سود کی سائلوں کو دینا ہوتا ہے، اگر یہ ملازمت جائز نہیں ہے تو کوئی شرعی طریقہ جائز ہونے کا تحریر فرمائیے کہ جس میں تنخواہ نقل نویسی کی جائز اور درست ہوجاوے ؟
الجواب: نقل کرنا سود کے مضمون کا سائل کے دینے کو یہ اعانت ہے سود کی، یہ تو ناجائز ہے إلا لمن لم یکن مخاطبا بحرمته۔ لیکن تنخواہ اس کام کی ایک قاعدہ فقہیہ کی بناء پر حلال ہے: وهي إباحة مال غیر المسلم والذمي برضاه في غیر دار الإسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved