- فتوی نمبر: 9-370
- تاریخ: 23 اپریل 2017
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ہم ایک پارٹی کے ساتھ عرصہ دراز سے کام کر رہے تھے وہ پارٹی ابتداء میں ہم سے تھوڑی سی مالیت کا مال ادھار لے کر جاتی تھی اور بروقت ادائیگی کر دیتی تھی۔ اس پارٹی کی بہترین ادائیگی کی بنیاد پر آئندہ اس نے ہم سے جتنی مالیت کا مال بھی مانگا ہم اسے دیتے رہے۔ رفتہ رفتہ وہ پارٹی ہم سے کاروبار کا حجم 80 لاکھ تک لے گئی اور یکدم اپنے نقصان کا رونا شروع کر دیا۔ پارٹی آج بھی پیسے دینے سے منکر نہیں ہے لیکن آئندہ پر اس کے دعویٰ کے بارے میں ہمارا اندازہ دونوں طرح ہے۔
1۔ یہ کہ جھوٹ بول رہی ہے اور بدنیت ہو گئی ہے پیسہ اس کے پاس ہے۔
2۔ شاید سچ کہہ رہی ہو اور واقعی نقصان ہو گیا ہو۔
پارٹی مارکیٹ سے بھاگی نہیں ہے اور آج بھی مارکیٹ میں کام کر رہی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ اس بات کو کئی سال ہو چکے ہیں اور کافی بحث و تمحیص کے بعد طے ہوا ہے کہ وہ ہمیں ماہانہ 20 ہزار روپے کر کے ادائیگی کرے گی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا 80 لاکھ روپے کی زکوٰۃ ہمارے ذمہ ہے؟ جبکہ ماہانہ 20 ہزار کر کے بھی ہو تو شاید ہماری آدھی سے زیادہ رقم تو زکوٰۃ میں چلے جائے گی۔ تو زکوٰۃ کی کیا صورت ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں 80 لاکھ روپے پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
توجیہ: مدیون نے اگرچہ توڑ توڑ کر رقم دینے کا کہا ہے مگر اتنی بڑی مقدار کو اتنی چھوٹی مقدار میں توڑ توڑ کر دینے سے دین کے پورا ملنے کی امید موہوم ہی رہتی ہے اس لیے یہ مالِ ضمار کے حکم میں ہے۔
فتاویٰ عالمگیریہ (1/174) میں ہے:
وذلك مثل الضمار وهو كل ما بقي أصله في ملكه ولكن زال عن يده زوالاً لا يرجى عوده في الغالب. ومن مال الضمار الدين المجحود والمغصوب إذا لم يكن عليها بينة.
امداد الفتاویٰ (2/33) میں ہے:
’’بندہ کے نزدیک ان اقوال میں سے قولِ مختار یہ ہے کہ جس قرض کے وصول ہونے کی امید ضعیف ہو یا بالکل نہ ہو قبل وصول اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور وصول کے بعد جس قدر وصول ہو گا بعد حولانِ حول آئندہ صرف اسی قدر پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved