- فتوی نمبر: 27-217
- تاریخ: 04 ستمبر 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > مسافر کی نماز کا بیان
استفتاء
ہم**میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہیں اور ہمارا آبائی گاؤں**ہے گاؤں میں ہمارے کھیت ، زمینیں وغیرہ بھی ہیں اس کی دیکھ بھال کے لیے ہر ایک بھائی دو دو سال گاؤں میں گزارتا ہے یعنی ہم نے گاؤں کو مستقلاً نہیں چھوڑا ہے خوشی غمی میں ہم گاؤں جاتے ہیں ۔ اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ
(1)جس کی پیدائش بھی گاؤں میں ہوئی ہو اور وہاں زمینیں اور کھیت بھی ہوں تو کیا یہ شخص گاؤں میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر کریگا ؟ جبکہ پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ صورت میں یہ شخص اپنے گاؤں میں بھی پوری نماز پڑھے گا، چاہے پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں اس شخص کا گھر اور زمین پہلے وطن (اپنے آبائی گاؤں) میں موجود ہیں ایسی صورت میں پہلا وطن دوسرے وطن سےاس وقت باطل ہوتا ہے جب پہلے وطن کو چھوڑنے کی اور وہاں سے رہائش ختم کرنے کی نیت کی ہو جبکہ مذکورہ صورت میں اس شخص نے وہاں سےرہائش ختم کرنے کی نیت نہیں کی اس لیئے پہلا وطن اپنی حالت پر برقرار رہے گا اور جب یہ وہاں جائے گا تو پوری نماز پڑھے گا۔
کفایہ مع فتح القدیر (2/18) میں ہے:
وفي المحیط ولو انتقل بأهله ومتاعه إلی بلد وبقي له دور وعقار في الاول، قیل بقي الاول وطنا له وإلیه أشار محمد في الکتاب حیث قال: باع داره ونقل عیاله، وقیل لم یبق وفي الاجناس قال هشام: سألت محمدًا عن کوفي أوطن بغداد وله بالكوفة دار واختار الي مكة القصرقال محمد هذا حالي وأنا أریٰ القصر إن نویٰ ترک وطنه إلا أن أبا یوسف کان یتم بها لکنه یحمل علی أنه لم ینو ترک وطنه قال الشیخ نجم الدین الزاهدي: وهذا جواب واقعة ابتلینا به وکثیر من المسلمین المتوطنین في البلاد ولهم دور وعقار في القریٰ البعیدة منها یصیفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظهما أنهما وطنان له لایبطل أحدهما بالآخر.
امداد الفتاویٰ( 1/459) میں ہے:
’’سوال: ایک شخص نے جس کا مکان سکونت اس کی زادبوم وطن اصلی میں ہے اس کی زوجہ اولیٰ ودیگر اعزاواقران اس کے سب وہیں ہیں دوسرے شہر میں فقط زوجہ ثانیہ کے قیام وسکونت کیلئے مکان بنایا چند سال رہنے کے بعد باعث ناموافقت آب وہوا ومبتلاء باامراض رہنے زوجہ ثانیہ کے وطن زادبوم میں اپنی زوجہ ثانیہ کو لیجانا پڑا اور اس دوسرے شہر کے مکان کو مقفل کردیا بعض اسباب خانہ داری بھی اب تک یہیں ہیں اور زوجہ ثانیہ کا پھر اس دوسرے شہر میں آنا بھی اس دم تک مشکوک ہے ایسے حال میں وہ شخص اگردو ایک دن کیلئے کسی ضرورت سے یا مکان کی نگرانی کے خیال سے اس شہر میں مسافت طے کرکے آئے تو اس کوقصرکرنا ہوگا یا چاررکعت پوری فرض اداکرنا ہوگا۔ اس مسئلہ میں جو قول محقق ومفتیٰ بہ بمذہب حنفی ہو مع نقل عبارت معتبرات رقم فرمایا جاوے۔ بینوا أیھا العلماء الکرام أحسن اللّٰہ جزاکم یوم القیام
الجواب : في رد المحتار: قال في النهر: ولونقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لاتبقی وطنا له وقیل تبقی کذا في المحیط اٰھ ج۱ص۸۲۹۔
اس سے معلوم ہوا کہ صورت مذکورہ میں دونوں قول ہیں اور یہی دونوں قول فتح القدیر اوربحرالرائق میں بھی نقل کئے ہیں اور بحر میں دونوں قول کی دلیلیں بھی نقل کی ہیں اور فتح القدیر میں دونوں کی تطبیق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور میرے نزدیک تطبیق ہی مختار ہے؛ چنانچہ اس صورت میں امام محمدؒ کا قول : ھذا حالی وأنا أری القصر إن نوی ترک وطنہ نقل کرکے لکھا ہے إلا ان أبایوسفؒ کان یتم بہا لکنہ یحمل علی أنہ لم ینوترک وطنہ اٰھ۔‘‘
© Copyright 2024, All Rights Reserved