• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جوار یا گندم کو کاٹنے سے پہلے بیچنے کی صورت میں عشر مشتری پر ہوگا یا بائع پر ؟

استفتاء

اگر کوئی آدمی جوار یا گندم کی فصل کھیت میں کاٹنے سے قبل ہی بیچ دے  تو اس کا عشر کس پر ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر پکنے  سے پہلے فصل بیچ دی ہو تو  عشر خریدار پر  ہوگا اور اگر فصل پکنے کے بعد بیچی ہو  تو  عشر بیچنے والے پر ہوگا ۔

نوٹ: پکنے سے مراد  یہ ہے کہ جس فصل کو جس وقت عام طور سے کاٹا جاتا ہے وہ فصل اس وقت کو پہنچ گئی ہو اور کاٹنے کے قابل ہوگئی ہو۔

الدر  المختار  مع ردالمحتار (2/333)میں ہے:

ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري ولو بعده فعلى البائع

(قوله: ولو باع الزرع إلخ) الظاهر أن حكم خراج المقاسمة كالعشر كما يعلم مما مر ح ثم هذا إذا باع الزرع وحده وشمل ما إذا باعه وتركه المشتري بإذن البائع حتى أدرك فعندهما عشره على المشتري وعند أبي يوسف عشر قيمة القصيل على البائع، والباقي على المشتري كما في الفتح

بدائع الصنائع (2/56) میں ہے:

ولو باع الأرض العشرية وفيها زرع قد أدرك مع زرعها أو باع الزرع خاصة فعشره على البائع دون المشتري؛ لأنه باعه بعد وجوب العشر وتقرره بالإدراك ولو باعها والزرع بقل فإن قصله المشتري للحال فعشره على البائع أيضا لتقرر الوجوب في البقل بالقصل.وإن تركه حتى أدرك ‌فعشره ‌على ‌المشتري في قول أبي حنيفة ومحمد لتحول الوجوب من الساق إلى الحب وكذلك حكم الثمار على هذا التفصيل وروي عن أبي يوسف أنه قال: عشر قدر البقل على البائع وعشر الزيادة على المشتري

درر الحکام شرح غرر الاحکام (1/188) میں ہے:

( ووقته) أي وقت أخذ العشر (‌عند ‌ظهور الثمر) هذا ‌عند أبي حنيفة وأما ‌عند أبي يوسف فوقته وقت إدراكه وعند محمد ‌عند حصوله في الحظيرة

قوله: ووقته ‌عند ‌ظهور الثمر. . . إلخ) كذا قاله الزيلعي وقال في البرهان ووجوب العشر باشتداد الحب وبدو صلاح ‌الثمرة ‌عند أبي حنيفة؛ لأن الخارج بلغ حدا ينتفع به وأبو يوسف يرى الوجوب بالحصاد والجداد لا وقت جمع الخارج في الجرن كما قال محمد

الجوہرۃ النیرۃ (1/126) میں ہے:

« واختلفوا في وقت وجوب العشر في الثمار والزرع فقال أبو حنيفة وزفر يجب ‌عند ظهور الثمرة والأمن عليها من الفساد وإن لم يستحق ‌الحصاد إذا بلغت حدا ينتفع بها.

وقال أبو يوسف ‌عند ‌استحقاق ‌الحصاد وقال محمد إذا حصدت وصارت في الجرين»

امداد الفتاویٰ (4/59) میں ہے:

سوال(۸۶۰) : قدیم ۲/۵۷ –   باغات کی زکوٰۃ کس طرح دینا چاہئے۔ آیا باغات کی پیداوار میں سے عشر یا نصف عشر دینا چاہئے عام باغات جب تک تیار نہیں ہوجاتے بیچے جاتے ہیں جب تیار ہوں گے پھر اُن کو نہیں بیچتے۔ حاصل یہ کہ پیداوار اور پھلنے کے وقت اُن میں پانی نہیں دیا جاتا۔ پھر بعض لوگ باغات کی فصل فروخت کر ڈالتے ہیں تو کیا عشر یا نصف عشر کی مقدار فصل نہ فروخت کرنا چاہئے بلکہ اس کو مصارفِ زکوٰۃ میں دیدیناچاہیے۔ یا فصل کی قیمت میں سے عشر یا نصف عشر دینا چاہئے اگر قیمت میں سے دینا چاہیے  تو اسمیں عشر یا نصف عشر زکوٰۃ نہیں بلکہ چالیسواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔ پھر حولانِ حول کی شرط الگ ہے چونکہ اکثر لوگ باغات کی زکوٰۃ سے غافل ہیں ۔ اس کے مفصل جواب سے مطمئن فرماویں ؟

الجواب: في رد المحتار: واختلفوا في وقت العشر في الثمار والزرع فقال أبو حنيفة وزفر: يجب عند ظهور الثمرة والأمن عليها من الفساد، وإن لم يستحق الحصاد إذا بلغت حدا ينتفع بها وقال أبو يوسف عند ‌استحقاق ‌الحصاد وقال محمد إذا حصدت وصارت في الجرين وفي الدرالمختار ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري ولو بعده فعلى البائعاِن اقوالِ مختلفہ میں میرے نزدیک امام ابو یوسفؒ کا قول اعدل ہے۔ اس بناء پر پختگی ثمرہ کے وقت جس کے پاس وہ باغ ہو اُس پر عُشر واجب ہوگا۔ خواہ پھل دے یااُس کی قیمت بشرطیکہ بیع باطل نہ ہوئی ہو ور نہ بائع کے ذمہ ہوگا؛ کیونکہ اس کی ملک سے خارج نہیں ہوا اور پانی نہ دینے کو اسمیں کوئی دخل نہیں بارانی زمین وباغ میں بھی عشر ہے اور اگر دام دے گا تو وہ زکوٰۃ روپیہ کی نہ ہوگی؛ بلکہ حق عشر کا بدل ہوگا، پس اسمیں کوئی شبہ نہیں اور اگر کوئی ابویوسف ؒ کاقول نہ لے تو جس قول کو لے گا اس کے موافق وجوب عشر کا وقت دیکھا جاوے گا۔

خیر الفتاویٰ (3/442) میں ہے:

سوال :زید اپنے باغ کا میوہ ایسے وقت میں فروخت کرتا ہے کہ جب ظاہر ہو چکا ہوتا ہے مگر ابھی تک پختہ نہیں ہوا اور فروخت کے وقت کوئی شرط نہیں لگاتا کہ بائع کے درختوں پر مشتری کا میوہ پختہ ہونے تک چھوڑا جائے گا بلکہ  عقد مطلق ہوتا ہے البتہ بائع خود مشتری  کا میوہ پکنے تک اپنی رضا سے چھوڑ دیتا ہے تو اس صورت میں میوہ کا  عشر بائع پر ہے یا مشتری پر؟

جواب :صورۃ مسئولہ میں عشر مشتری پر ہے جیسا  کہ جزئیہ مسطورہ  سے ثابت ہوا ہے

مسائل بہشتی زیور (1/374) میں ہے:

مسئلہ: پکنے سے پہلے کھیت بیچ ڈالا تو اس کا عشر خریدار کے ذمہ ہے اور اگر پکنے کے بعد بیچا تو بائع یعنی فروخت کنندہ کے ذمہ ہے۔ یہی حکم پھل کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved