- فتوی نمبر: 20-110
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
جمعہ کی دوسری اذان دروازے کے پاس آ کر دینا کیسا ہے؟ مدلل جواب ہو کیونکہ اس بات پر لڑائی ہو گئی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: یہ دوسری اذان دروازے کے پاس آ کر دینے کی کیا وجہ ہے؟ نیزاس بات پر لڑائی کی کیا وجہ ہے؟
جواب ضاحت: وجہ یہ ہے کہ ایک بریلوی کہتا ہے کہ جائز ہے اور دیوبندی کہتا ہے کہ ناجائز ہے جس کی وجہ سے بات بڑھ گئی اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے آپ بتا دیں کون حق پر ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جمعہ کی دوسری اذان خطیب کے سامنے منبر کے قریب مسجد میں ہو یہی مسنون ومعروف ہے علماء اور فقہاء کا اسی پر عمل رہا ہے ۔
درمختار(3/38) میں ہے:
(ویؤذن) ثانيا (بين يديه) اي الخطيب
بحر الرائق(2/274) میں ہے:
قوله(فاذا جلس على المنبر اذن بين يديه واقيم بعد تمام الخطبة) بذلك جرى التوارث والضمير فى قوله "بين يديه” عائد الى الخطيب الجالس
فتاوی محمودیہ (8/300) میں ہے:
سوال: جمعہ میں اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہیے یا بیرون مسجد؟
جواب:اس اذان کا حال اقامت کی طرح ہے یعنی یہ حاضرین مسجد کی اطلاع کے لئے ہے کہ اب خطبے کے لئے تیار ہو جاؤ نفل تسبیح تلاوت ختم کر دو پس یہ اذان خطیب کے مقابل پہلی صف میں یا نمازیوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے جس میں مناسب ہو کہ سب تک آواز پہنچ جائے مسجد ہی میں دی جائے یہی متوارث ہے۔
فتاوی محمودیہ (8/300) میں ہے:
سوال:جمعہ کی اذان ثانیہ کے متعلق اگر کوئی شخص یہ قید لگائے کہ منبر کے سامنے ہونی چاہیے اور اس پر اصرار اور تشدد کرتا ہو تو شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: دوسری اذان کا منبرکے سامنے ہونا سنت ہے اس پر ہمیشگی باعثِ ثواب ہے اور اس کے خلاف کرنا خلاف سنت ہے۔
مسائل بہشتی زیور ( 1/151) میں ہے :
جمعہ کی اذان ثانی کو مسجد کے اندر خطیب کے سامنے کہنے کا صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے دور سے تعامل چلا آرہا ہے کیونکہ اس میں صرف حاضرین (جو پہلی اذان سن کر حاضر ہو چکے ہیں ان )تک آواز پہچانا مقصود ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved