• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جمعہ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی وعید

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام مسئلہ ہذا میں کہ جو وعید حدیث شریف میں آئی ہے کہ  " جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردن پھلانگی اس نے جہنم میں جانے کا اپنی گردن کو پل بنا لیا " کیا یہ وعید صرف شہر اور تحصیل والوں کے لیے ہی ہے یا کہ دیہات  والوں کے لیے بھی ہے ؟ یہ سوال گاؤں کے متعلق عرض کیا گیا ہے۔

  1. اور جو اذان ثانی پڑھنے جائے وہ پیچھے ہی بیٹھ جائے یا کہ صف اول میں آکر بھی بیٹھ سکتا ہے۔

بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ یہ وعید سب کے لیے ہے تاہم یہ اس صورت میں ہے جب گردن پھلانگ کر آگے جانے کی کوئی خاص مجبوری نہ ہو اور جہاں جمعہ ہوتا ہو وہاں ابھی امام نے خطبہ شروع نہ کیا ہو۔

2۔ اول تو اس کو اذان ثانی کے لیے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں صف اول میں بھی اذان ثانی پڑھی جا سکتی ہے اور اگر کسی وجہ سے جانے کی ضرورت ہو تو صف اول میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہیں بیٹھا رہے جہاں اس نے اذان ثانی پڑھی ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے صف اول میں آنا پڑے تو دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھتے ہوئے صف اول میں آنے کی بھی گنجائش ہے۔

توجیہ : مذکورہ حدیث میں اگرچہ جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی وعید آئی ہے لیکن شراح حدیث فرماتے ہیں  کہ اس ممانعت کی وجہ چونکہ لوگوں کی اذیت اور اور ان کی بے اکرامی ہے لہٰذا  یہ وعید  نماز جمعہ کے علاوہ تمام نمازوں بلکہ علم اور وعظ کے حلقوں کو بھی شامل ہے خواہ یہ حلقے شہر میں ہوں یا گاؤں ، دیہات میں ہوں اور خواہ ان دیہاتوں میں جمعہ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو ۔  اور   حدیث میں  خاص جمعہ کا ذکر  اس لیے کردیا گیا کہ عموماً  جمعہ میں لوگوں کا مجمع ہوتا ہے۔

1۔ سنن الترمذي  (رقم الحديث 513) میں ہے :

عن سهل بن معاذ بن أنس الجهني، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌تخطى رقاب الناس يوم الجمعة اتخذ جسرا إلى جهنم»

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 208) میں ہے :

«ثم تقييد التخطي بالكراهة يوم الجمعة هو المذكور في الأحاديث، وكذلك قيده الترمذي في حكايته عن أهل العلم، وكذلك قيده الشافعية في كتب فقههم في أبواب الجمعة، وكذا هو عبارة الشافعي في (الأم) : وأكره تخطي رقاب الناس يوم الجمعة لما فيه من الأذى وسوء الأدب. انتهى. قلت: ‌هذا ‌التعليل ‌يشمل يوم الجمعة وغيره من سائر الصلوات في المساجد وغيرها، وسائر المجامع من حلق العلم وسماع الحديث ومجالس الوعظ، وعلى هذا يحمل التقييد بيوم الجمعة على أنه خرج مخرج الغالب لاختصاص الجمعة بمكان الخطبة وكثرة الناس، بخلاف غيره. ويؤيد ذلك ما رآه أبو منصور الديلمي في (مسند الفردوس) من حديث أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من تخطى حلقة قوم بغير إذنهم فهو عاص) ، ولكنه ضعيف لأنه من رواية جعفر بن الزبير، فإنه كذبه شعبة وتركه للناس ۔

بذل المجہود في حل سنن أبي داؤد  (5/ 178) میں ہے:

قال الشوكاني : وأحاديث الباب تدل على كراهة التخطي يوم الجمعة، وظاهر التقييد بيوم الجمعة أن الكراهة مختصة به، ويحتمل أن يكون التقييد خرج مخرج الغالب؛ لاختصاص الجمعة بكثرة الناس، بخلاف سائر الصلوات؛ فلا يختص ذلك بالجمعة، بل يكون حكم سائر الصلوات حكمها، ويؤيد ذلك بالتعليل بالأذية، وظاهر هذا التعليل أن ذلك يجري في مجالس العلم وغيرها ………………..

وحاصله أن التخطي جائز بشرطين: عدم الإيذاء، وعدم خروج الإِمام، لأن الإيذاء حرام، والتخطي عمل، وهو بعد خروج الإِمام حرام، فلا يرتكبه لفضيلة الدنو من الإِمام، بل يستقر في موضعه من المسجد، وما ذكر في "البحر” وغيره من أن من وجد فرجة في المقدم له أن يخرق الثاني، لأنه لا حرمة لهم لتقصيرهم، يحمل على الضرورة أو على عدم الإيذاء، أو على الاستئذان قبل خروج الإِمام جمعًا بين الروايات، انتهى.

2۔ فتاوی شامی  (2/ 163) میں ہے :

لا ‌بأس ‌بالتخطي ما لم يأخذ الإمام في الخطبة ولم يؤذ أحدا إلا أن لا يجد إلا فرجة أمامه فيتخطى إليها للضرورة ( قوله ولم يؤذ أحدا) بأن لا يطأ ثوبا ولا جسدا وذلك لأن التخطي حال الخطبة عمل، وهو حرام وكذا الإيذاء والدنو مستحب وترك الحرام مقدم على فعل المستحب .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved