• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کباڑ خانے سے چوری کا مال خریدنا

استفتاء

کباڑ خانے میں اکثر لوگ چوری کامال بیچ جاتے ہیں ۔کیا کباڑ خانے سے کوئی چیز خریدنا جائز ہے جب کہ ہم پیسے دے کر خریدتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کسی چیز کے بارے میں پکا پتہ ہو (یا غالب گمان ہو)کہ یہ چوری کی ہے تو اسے خریدنا جائز نہیں اوراگر  پکا پتہ نہ ہو تو خریدسکتے ہیں ۔

السنن الكبرى للبيهقي (5/ 335)میں ہے:۔

عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال :« من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك فى عارها وإثمها ».

الفتاوى الہندیہ (2/ 184)میں ہے:۔

وإذا ملك السارق المسروق من رجل ببيع أو هبة أو ما أشبه ذلك قبل القطع أو بعده فتمليكه باطل ويرد المسروق على المسروق منه ويرجع المشتري على السارق بالثمن الذي دفعه إليه.

مواهب الجليل لشرح مختصر الخليل (7/ 315)

 ولا يحل لأحد أن يشتريه منه إن كان عرضا ولا يبايعه فيه إن كان عينا ولا يأكله إن كان طعاما ولا يقبل منه شيئا هبة ولا يأخذه منه في حق كان له عليه ومن فعل شيئا من ذلك وهو عالم كان سبيله سبيل الغاصب في جميع أحواله

رد المحتار (19/ 354)میں ہے:۔

(در)وفي حظر الأشباه : الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث ، وقيده في الظهيرية بأن

 لا يعلم أرباب الأموال ،…………(رد)وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين ،

 سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال : هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك.

فقہ البیوع(2/1006)میں ہے:۔

تتعدى حرمته الى من ياخذه من الغاصب شراء او هبة او ارثا،وهو يعلم انه مغصوب ……..ولايحل لاحد ان يشتريه منه ان كان عرضا ولايبايعه فيه ان كان عينا………

کفایۃ المفتی (8/33)میں ہے:۔

چوری کے مال کو خریدنا اور اس پر حاصل شدہ نفع کا حکم !

(سوال )  ایک تاجر  چرم سولہ ہزار بکری کے چمڑے کو  ایک یورپین تاجر کے ہاتھ فروخت کرچکا تھا رات میں اس کے لڑکے نے اس  میں سے چرا کر چمڑا فروخت کرڈالا اور مشتری کو بھی علم ہے کہ لڑکا باپ کے فروخت کردہ چمڑے کو چرا کر فروخت کررہا ہے اس مشتری کا باوجود چوری کے علم کے یہ معاملہ شراء شرعاً  درست ہوگا یا نہیں؟ نیز لڑکے کا باپ کے ما ل کو چورا کر فروخت کرڈالنا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ نیز اس چوری کے مال کو جس شخص نے خرید کیا ہے وہ حاجی نمازی مؤدی زکوۃ ہے اس چوری کے مال کو خرید کرنے سے اس کی دینداری اور نیکی  میں کوئی نقصان لازم آئے گا یا نہیں؟  اور اس معاملہ شراء سے وہ گناہ گار ہوگا یا نہیں ؟  نیز اس مال مسروقہ  کے نفع اور اصل مشتری کے مال حلال   میں اگر مخلوط ہوجائے تو اس کے حلال مال میں کوئی شرعی قباحت لازم ہوگی یا نہیں اگر لازم ہو تو اس سے مال حلال کو  کس طرح  پاک کیا جائے ؟  المستفتی نمبر  ۸۶۱ حاجی مولابخش ڈھاکہ‘ ۲۲ محرم ۱۳۵۵ ؁ھ ۵ اپریل ۱۹۳۶؁ء

(جواب)  لڑکے  کا یہ فعل حرام ہے اور اگر مشتری  کو یہ علم تھا تو اس کو خریدنا بھی حرام تھا اور بیع وشراء دونوں ناجائز واقع ہوئیں اور مشتری کی صلاحیت اس فعل سے خراب ہوگئی اور اس مال کا نفع بھی اس کے لئے حلال نہیں ۔ محمد کفایت  اللہ کان اللہ لہ‘

فتاوی محمودیہ(28/326)میں ہے:۔

چوری کا مال خریدنا

سوال:۔مسروقہ شئی مثلاً جانور ،کپڑا، جوتہ وغیرہ کو دانستہ یاغیر دانستہ خریدنا اور اس کو استعمال کرناکیسا ہے ؟

الجواب:معلوم ہونے پرکہ یہ چوری کی چیز ہے اس کا خریدنا درست نہیں،۱س سے اس کی ملک ثابت نہیں ہوگی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب حررہ العبد محمود عفی عنہ دارالعلوم دیوبند۔   الجواب صحیح بندہ محمد نظام الدین غفرلہٗ دارالعلوم دیوبند۔

فتاوی محمودیہ (16/86) میں ہے:۔

شئی مسروق کی خریداری :

سوال:۔ ایک لڑکامراہق بازار میں چلا جارہاتھا، اوراس کے پاس قیمتی شئی ہے وہ کہتاہے کہ میں اس کوبیچتاہوں ، قیمت بہت کم بتلائی اورانتہائی کم قیمت میں وہ شئی خرید ی گئی اس سے معلوم کیا کہ چوری کی تو نہیں ا س نے انکار کیا،لیکن قرائن سے اغلب یہی ہے کہ وہ چوری کی شئی تھی، اب اسے کیاکریں آیا صدقہ کریں یاکچھ اورکریں؟

الجواب: جس شئی کے متعلق قرائن سے غالب خیال یہ ہوکہ یہ چوری کی ہے اس کو خر یدنا درست نہیں اگرخرید چکا ہے تو واپس کردے، اگرمالک کاعلم ہوجائے تواسکے حوالہ کردے پھر چاہے تو اس سے معاملہ کرکے خرید لے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم ۔     حررہ العبد محمودغفرلہٗ دارالعلوم دیوبند

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved