• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کفالت اور وراثت سے متعلق ایک صورت کا حکم

استفتاء

میرے چچا ( ***) اور چچی(***) دونوں وفات پاچکے ہیں، ان کا ایک بیٹا *** اور ایک بیٹی ***   ہے، *** کی عمر اٹھائیس سال ہے اور *** کی عمر بیس سال   ہے،*** ذہنی طور پر کمزور ہے جبکہ *** کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے ،*** کی شادی کو تین ،چار سال ہوئے ہیں لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی، *** کی بیوی اپنی عدت پوری کرنے کے بعد اپنے میکے جانا چاہتی ہے،چچا کے نام پر ایک گھر ہے چچا کی وراثت کے پیسے پہلے ہی تقسیم ہوچکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ:

1۔*** کی کفالت کس کے ذمے ہے؟ جبکہ *** کے ورثاء میں دادی ،نانی، پھوپھیاں،ماموں،اور تائی شامل ہیں، باقی دادا ،نانا، تایا حیات نہیں ہیں۔

2۔گھر کی اور *** کو باپ اور بھائی کی طرف سے ملنے والے پیسوں کی تقسیم کیسے ہوگی؟

3۔چچا نےمکان کے علاوہ تقریبا اٹھارہ لاکھ روپیہ وراثت میں چھوڑا تھا جس کی تقسیم ہوچکی ہے،ان پیسوں میں *** کا جو حصہ تھا وہ *** نے لیا تھا کیونکہ *** اس وقت *** کی کفالت میں تھی تو*** کے ان پیسوں کا حقدار کون ہوگا؟۔

وضاحت مطلوب ہے:(1) *** اختر کے کتنے بہن بھائی تھے؟اور ان میں سے *** اختر کے فوت ہونے کے وقت کون کون زندہ تھے؟ (2)*** کے بیٹے *** کی وفات کے وقت *** کے چچا،تایا یا ان کی اولاد میں سے کوئی زندہ تھا؟ (3) مذکورہ صورت میں کس چیز کی تقسیم درکار ہے *** اختر کے نام پر جو گھر تھا اس کی تقسیم درکار ہے یا اس کی علاوہ بھی کسی چیز کی تقسیم درکار ہے؟

جواب وضاحت:(1)ایک بھائی اور چار بہنیں،چچا کی وفات  کے وقت یہ سب زندہ  تھے(2)*** کی وفات کے وقت ان کے تایا کا بیٹا یعنی میں خود(سائل) زندہ تھا(3) گھر کے علاہ *** کو انشورنس کی مد میں تقریبا پانچ لاکھ روپیہ ملنا ہے، جس کی تفصیل یہ ہےکہ *** سوئی گیس ڈیپارٹمنٹ میں کنٹرکٹ پر ملازم تھا،چار، پانچ سال سے اس کے ڈیپارٹمنٹ نے گروپ انشورنس کروا رکھی تھی جو ہر ملازم کی ہوتی ہے۔اس کی بھی تقسیم مطلوب ہے۔

نوٹ: سب سے پہلے میرے چچا کا انتقال ہوا تھا ،اس کے بعد میری چچی کا اوراس کے بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوااور پھر *** کا انتقال ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ *** خاندان کی کسی عورت کے پاس رہے گی۔  البتہ خرچہ  ***  کے  پاس مال ہو تو ان کے اپنے مال میں سے ہوگا جب *** کا مال ختم ہوجائے  تو ان کےتایا کےبیٹے ، نانی اور دادی کے ذمہ ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ *** کے خرچے کا چھٹا حصہ(16.666 فیصد) اس کی دادی اور نانی کے ذمے ہے اور باقی (83.333 فیصد) تایا کے بیٹے کے ذمے ہے۔

2۔مذکورہ صورت میں گھر کی  مالیت کےکل 288حصے کئے جائیں گے،جن میں سے156حصے(54.166 فیصد) *** کو ،39حصے(13.541 فیصد) *** کی بیوی کو،13حصے(4.513 فیصد) *** کے چچا زاد کو،61 حصے (21.180فیصد)*** کی دادی کو اور19 حصے(6.597فیصد) *** کی نانی کو ملیں گے۔

3۔جب *** *** کی کفالت میں تھی تب تو *** ہی *** کے پیسوں کا حقدار تھا کہ وہ ان پیسوں کو *** کی ضروریات میں خرچ کرتا،اب *** جس کی کفالت میں ہوگی وہی *** کے پیسوں کا حق دار ہوگا کہ وہ ان پیسوں کو *** کی ضروریات میں خرچ کرے۔

نوٹ:انشورنس کی مد میں ملنے والی رقم  کا شرعی حکم ہمارے ہاں زیر تحقیق ہے اس لئے اس کی تقسیم سے متعلق فی الحال کوئی حکم نہیں بتایا جا سکتا۔

در مختار(5/368) میں ہے:

 (و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة) كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) حال من المجموع بحيث تحل له الصدقة ولو له منزل وخادم على الصواب بدائع (بقدر الإرث) – لقوله تعالى{وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]- (و) لذا (يجير عليه)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved