- فتوی نمبر: 31-238
- تاریخ: 22 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان > روزے کے کفارہ کا بیان
استفتاء
ایک ہی رمضان کے متعدد روزے توڑنے کا حکم:
ایک ہی رمضان میں کئی روزے بلا عذر توڑدیے تو سب کی جانب سے ایک کفارہ بھی کافی ہے، البتہ قضا رکھنا تو ہر ایک روزے کا ضروری ہے۔ اور اگر متعدد رمضانوں کے روزے بلاعذر توڑے ہوں تو ایسی صورت میں الگ الگ کفارہ ہوگا جبکہ بعض اہلِ علم کے نزدیک سب کی طرف سے ایک ہی کفارہ لازم ہوگا۔ و اللہ تعالی اعلم( امداد الفتاوی ، رد المحتار علی الدر المختار ، بہشتی زیور ، ماہِ رمضان کے فضائل و احکام)
1۔یہ مفتی مبین الرحمن صاحب کی تحریر ہے اس میں ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک الگ الگ کفارہ دینا ہوگا اور بعض حضرات کے نزدیک ایک ہی کفا رہ لازم ہوگا اس میں مفتی بہ قول کیا ہے؟
مسئلہ:جماع کے علاوہ اور کسی سبب سے اگر کفارہ واجب ہوا ہو اور ابھی ایک کفارہ ادا نہیں کیا تھا کہ دوسرا واجب ہو گیا تو ان دونوں کے لیے ایک ہی کفارہ کافی ہے، اگر چہ دونوں کفارے دو رمضانوں کے ہوں البتہ جماع کے سبب سے جتنے روزے فاسد ہوئے ،اگر وہ ایک ہی رمضان کے روزے ہیں تو ایک ہی کفارہ کافی ہے اور دو ر مضان کے ہیں تو ہر ایک رمضان کا کفار ہ علیحدہ دینا ہو گا اگر چہ ابھی پہلا کفارہ نہ ادا کیا ہو۔
مسئلہ: اگر ایک ہی رمضان کے دو تین روزے توڑ دیے تو ایک کفارہ واجب ہے، البتہ یہ دونوں روزے ایک رمضان کے نہ ہوں تو الگ الگ کفارہ دینا پڑے گا۔
2۔یہ دونوں مسئلے تسہیل بہشتی زیور میں ہیں جس پر مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے کام کیا ہے اس میں پہلے مسئلے میں ایک ہی کفارہ کاذکر ہے اور دوسرے مسئلہ میں الگ الگ کفار ہ کاذکر ہے ان دونوں مسئلوں میں تعارض محسوس ہورہا ہے اس کا حل کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔اس بارے میں مفتی بہ قول یہ ہے کہ اگر جماع کے علاوہ کسی اور سبب سے روزہ توڑا ہے اور ابھی کفارہ ادا نہیں کیا تھا کہ دوسراروزہ بھی توڑ ڈالا تو ایک ہی کفارہ کافی ہوگا چاہے ایک ہی رمضان کے دو روزے توڑے ہوں یا دو رمضانوں کے اور اگر جماع کے سبب سے روزے توڑے ہوں تو اگر ایک ہی رمضان کے روزے ہوں تو ایک ہی کفارہ کافی ہوگا اور اگر دو رمضانوں کے ہوں تو پھر ہر ایک رمضان کا الگ الگ کفارہ دینا ضروری ہوگا ۔
2۔پہلا مسئلہ بہشتی زیور کا ہے جبکہ دوسرا مسئلہ بہشتی گوہر کا ہے چونکہ اس مسئلے میں متعدد اقوال ہیں اس لیے بہشتی زیور میں ایک قول کو لے لیا جس کے مصنف الگ ہیں اور بہشتی گوہر میں دوسرے قول کو لے لیاجس کے مصنف الگ ہیں اور جب کتابیں اور مصنف الگ الگ ہیں تو ان میں کوئی تعارض نہیں ہر ایک کی اپنی اپنی ترجیح ہےجیسا کہ امداد الفتاوٰی اور اس کے حاشیہ سے واضح ہےباقی تسہیل بہشتی زیور والوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس کی وضاحت حاشیہ میں کردیتے تاکہ کسی کو تعارض محسوس نہ ہوتا ۔
شامی (2/ 413)میں ہے:
ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد وعليه الاعتماد بزازية ومجتبى وغيرهما واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا.
وفى الشامية: (قوله: وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار ونقل قبله عن الجوهرة لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية وهو الصحيح. اهـ.
قلت: فقد اختلف الترجيح كما ترى ويتقوى الثاني بأنه ظاهر الرواية.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص:663)میں ہے:
ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول تكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد وعليه الاعتماد بزازية ومجتبى وغيرهما واختار بعضهم للفتوى أن الفطر إن كان بغير الجماع تداخلت وإلا لا.
بہشتی زیور (ص:233)میں ہے:
مسئلہ :اگرایک ہی رمضان کے دو یاتین روزے توڑ ڈالے تو ایک ہی کفارہ واجب ہے البتہ اگر یہ دونوں روزے ایک رمضان کے نہ ہوں تو الگ الگ کفارہ دینا پڑے گا۔
بہشتی گوہر(ص:106)میں ہے:
مسئلہ :سوائے جماع کے اورکسی سبب سے اگر کفارہ واجب ہوا ہو اور ایک کفارہ ادا نہ کرنے پایا ہو کہ دوسرا واجب ہوجائے توان دونوں کے لئے ایک ہی کفارہ کافی ہے اگر چہ دونوں کفارے دورمضان کے ہوں ہاں جما ع کے سبب سے جو روزے فاسد ہوئے ہوں تو اگر وہ ایک ہی رمضان کے روزے ہوں تو ایک ہی کفارہ کافی ہےاور دو رمضان کے ہیں تو ہر ایک رمضان کا کفارہ علیحدہ دینا ہوگا اگرچہ پہلا کفارہ نہ ادا کیا ہو۔
امداد الفتاوٰی(2/166)میں ہے:
سوال : بہشتی زیور حصہ سوم میں مرقوم ہے۔مسئلہ :اگرایک ہی رمضان کے دو تین روزے توڑ ڈالے تو ایک ہی کفارہ واجب ہے البتہ اگر یہ دونوں روزے ایک رمضان کے نہ ہوں تو الگ الگ کفارہ دینا پڑے گا۔انتہی۔ اس مسئلہ سے مطلقاً معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی بھی سبب سے کئی ایک روزے گئے ہوں ایک کفارہ کافی ہے اور کسی سبب کی تحقیق نہیں بشرطیکہ ایک رمضان کے ہوں ۔
بہشتی گوہر میں تتمہ حصہ سوم بہشتی زیور میں مذکورہے۔مسئلہ :سوائے جماع کے اورکسی سبب سے اگر کفارہ واجب ہوا ہو اور ایک کفارہ ادا نہ کرنے پایا ہو کہ دوسرا واجب ہوجائے توان دونوں کے لئے ایک ہی کفارہ کافی ہے اگر چہ دونوں کفارے دورمضان کے ہوں ہاں جما ع کے سبب سے جو روزے فاسد ہوئے ہوں ہر ایک کا کفارہ علیحٰدہ رکھنا ہوگا اگرچہ پہلا کفارہ ادا نہ کیا ہو ۔انتہی، اس مسئلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزے بسبب جما ع کے گئے ہوں تو ایک کفارہ کافی نہیں اگرچہ ایک رمضان کے ہوں اور اگر سوائے جماع کے دوسرے سبب سے کفارہ واجب ہوا ہو توایک کفارہ کافی ہے اگرچہ دو رمضان کے ہوں پس مثلا اگر کسی شخص کے دو رمضان کے ملا کرپانچ روزے کسی اور سبب سے سوائے جماع کے گئے تو مطابق مسئلہ اولیٰ کے ایک کفارہ کافی ہے اور مطابق مسئلہ ثانیہ کے پانچ کفارے رکھنا پڑیں گے پس کون سی بات ٹھیک ہے۔
الجواب: بہشتی زیور کی سند میں تواس وقت کوئی روایت نہیں ملی ،مولوی احمد علی صاحب مرحوم نے معلوم نہیں وہ مسئلہ کہاں سے لکھا البتہ بہشتی گوہر کے موافق روایت درمختار وردالمحتار میں موجود ہے لیکن اول مسئلہ تو بلا اختلاف اور دوسرا باختلاف۔ فقط
امداد الفتاوٰی(2/166)کے حاشیہ میں علامہ ظفر احمد عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
حاشیہ بہشتی گوہر: از مولانا ظفر احمد صاحب قدس سرہ ،اس مسئلہ میں تین مسلک ہیں : ایک یہ کہ قبل کفارہ مطلقًا تداخل ہوسکتا ہے۔ دوم: یہ کہ ایک رمضان میں مطلقًا تداخل ہوسکتا ہے اور دو رمضان میں مطلقًا نہیں ہوسکتا۔سوم: یہ کہ کفارہ جماع میں مطلقًا تداخل نہیں ہوسکتا اور کفارہ غیر جماع میں مطلقًا تداخل ہوسکتا ہے۔بہشتی زیور میں مسلک دوم کو اختیار کیا ہے اور بہشتی گوہر میں مسلک سوم کو ، یہ اختلاف رائے مولوی احمد علی صاحب مؤلف بہشتی زیور ومولوی عبد الشکور صاحب مؤلف علم فقہ کا ہے اور حضرت مولانا مرحوم ومغفور نے تتمہ ثانیہ امداد الفتاوی ص:۳۷ میں ایک سوال کے جواب مسئلہ بہشتی زیور کو غیر معلوم السند اور مسئلہ بہشتی گوہر کو مستند الی الدر المختارو رد المحتار خیال فرمایا ہے اور ہم نے اس کی اصلاح میں ثابت کیا ہے کہ مسئلہ بہشتی زیور ماخوذ از د رمختار ہے اوروہی ان کے نزدیک راجح ہے۔من شاء التفصیل فليراجع الی إصلاحاتنا المتعلقة بالتتمة المذکور۔۱۲تصحیح الاغلاط، پھر بعد میں بہشتی گوہر کے مسلک پر بھی ترمیم کردی گئی۔
اب حاصل مسئلہ کا یہ ہے کہ غیر جماع میں تو تداخل جائز ہو سکتا ہے اور جماع میں ایک رمضان کے کفارات متداخل ہو سکتے ہیں، دورمضان کے نہیں کیونکہ جماع سے مطلقا تداخل نہ ہونا خلاف ظاہر روایت ہے ۔ کما یظهر من الشامية ومراقی الفلاح فلیراجع ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ظاہر روایت میں ایک رمضان کے کفارات متداخل ہو سکتے ہیں جب ہنوز کوئی کفارہ ادا نہ کیا ہو، دورمضان کے متداخل نہیں ہو سکتے اور اس میں جماع غیر جماع سب مساوی ہیں مگر ہم نے غیر جماع میں قول صحیح و معتمد کو لے لیا ہے ۱۲ ظفر احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved