• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کفارہ یمین و نذر

استفتاء

نیت کی تھی گناہ سے بچنے کی پھر سے وہی گناہ ہوگیا ہے اورنیت پوری نہیں  کر پارہی  اس کا  کفارہ بتادیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ (1)صرف نیت کی تھی یا الفاظ بھی بولے تھے؟

(2)الفاظ کیا تھے؟

جواب وضاحت(1)الفاظ بولے تھے۔

(2)یہی الفاظ تھے”اللہ اب سے کوشش کروں گی کہ  گناہ نہ ہو اگر ہوا تو یہ نیت کی تھی جو اوپر بتائی ہے اللہ سے وعدہ کیا تھا اورالفاظ بولے تھے،اکیلےخود سے نیت کی تھی 2سال بعد جا کر ٹوٹ گئی ۔ یہ الفاظ بولے تھے2 ماہ کے روزے اور 5000روپےصدقہ کروں گی اور اس کی نیت کی  تھی۔ پر میں9 ماہ سے بیڈ پر ہوں نمازبھی لیٹ کر پڑھ رہی ہوں ۔ صدقہ دے سکتی ہوں پر روزے نہیں رکھ سکتی اس لیے پلیز کفارہ بتادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر ایسے کام پر نذر مانی جائے  جس سے بچنا  چاہتے ہوں  تو یہ ظاہری صورت کے اعتبار سے نذر ہے اور معنی کے اعتبار سے قسم ہے ۔ پھر وہ کام اگر ہو جائے تو نذر ماننے والے کو اختیارہوتا ہے چاہےجو نذر مانی ہے وہ ادا کرے یا  قسم کا کفارہ دے  دے۔  قسم کاکفارہ یہ ہے کہ دس  مستحق زکوۃ لوگوں کو دو وقت کاکھانا کھلادے یا پونے دو کلو گندم دےدے یا اس کی قیمت دے دے۔ یا دس  مستحق زکوۃ لوگوں کو ایک ایک سوٹ بنادے اگر اتنی گنجائش نہ ہو تو تین روزے رکھے۔

الجوھرۃالنیرۃ(295مکتبہ  حقانیہ) میں ہے:

قوله ( وإن علق نذره بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر وروي عن أبي حنيفة أنه رجع عن ذلك وقال إذا قال : إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملك أجزأه عن ذلك كفارة يمين وهو قول محمد ) ويخرج عن العهدة بما سمى أيضا وهذا إذا كان شرطا لا يريد كونه بأن قال : إن كلمت زيدا فمالي صدقة أو علي حجة لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر فيتخير ويميل إلى أي الجهتين

فتاوی ہندیہ(3/146)میں ہے:

الفصل الثاني في الكفارة  وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي وعن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى إن أدنى الكسوة ما يستر عامة بدنه حتى لا يجوز السراويل وهو صحيح

الھدایہ(2/479مکتبہ میزان)میں ہے:

فصل في الكفارة :قال : كفارة اليمين عتق رقبة يجزي فيها ما يجزي في الظهار وإن شاء كسا عشرة مساكين كل واحد ثوبا فما زاد و أدناه ما يجوز فيه الصلاة وإن شاء أطعم عشرة مساكين كالإطعام في كفارة الظهار والأصل فيه قوله تعالى : { فكفارته إطعام عشرة مساكين } [ المائدة : 89 ] وكلمة أو لتخيير فكان الواجب أحد الأشياء الثلاثة

بہشتی زیور(2/179)میں ہے:

….اور اگر ایسے کام پر منت مانی جس کو کرنا نہیں چاہتا اور اس طرح کہا کہ اگرمیں تجھ سے بولوں تو دو روزےرکھوں۔یا یہ کہا کہ اگر آج میں نماز نہ پڑھوں توایک سو روپیہ خیرات کروں پھر اس سے بول دیا   یا نماز نہ پڑھی تو اختیار ہے چاہے قسم کا کفارہ دیدے اور چاہے روزے رکھے اور ایک سو روپیہ خیرات کرے کیونکہ یہ ظاہری صورت میں تو نذر ہے جبکہ معنی کے اعتبار سے قسم ہے کیونکہ غیر مطلوب کام پر اسی لیے کھا ئی جاتی ہے کہ اس کام سے بچ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved