• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کاغذی کرنسی سے متعلق سے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کو خط

استفتاء

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر و عافیت ہوں گے۔ سوال کا مقصد موجودہ کاغذی کرنسی کے بارے میں حضرات شیخین رحمہما اللہ کے مؤقف سے متعلق میں کچھ وضاحت مطلوب ہے۔

آنجناب نے  ’’الاوراق النقدیۃ‘‘ کے بارے میں حضرات شیخین رحمہما اللہ کے مذہب سے متعلق ’’فقہ البیوع‘‘ میں لکھا ہے:

”لو أجرينا عليها أحكام الفلوس …. على مذهب أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى لانفتح باب الربا بمصراعيه.“

پھر کچھ آگے چل کر آپ نے لکھا ہے:

’’ثم إن قول الإمام محمد رحمه الله يبدو راجحاً من حيث الدليل أيضاً إذا قورن بمذهب شيخيه أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى.“

آنجناب کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے كہ موجودہ  کاغذی کرنسی کے بارے میں بھی حضرات شیخین رحمہما اللہ کا امام محمد رحمہ اللہ سے وہی اختلاف ہے جو ’’فلوس‘‘ کے بارے میں تھا اور موجودہ کرنسی میں حضرات شیخین رحمہ اللہ کے مؤقف کو لینے میں ایک تو سود کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا اور دوسرے امام محمد رحمہ اللہ کا مؤقف من حیث الدلیل بھی راجح ہے اس لیے فتویٰ امام محمد رحمہ اللہ کے قول پر ہو گا۔

جبکہ ’’شرح وقایہ‘‘ کے حاشیہ میں حضرت مولانا فتح محمد صاحب رحمہ اللہ کی عبارت اور ’’کفایت المفتی‘‘ میں حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ کرنسی کے بارے میں حضرات شیخین رحمہ اللہ کا امام محمد رحمہ اللہ سے فلوس والا اختلاف جاری ہی نہیں ہوتا کیونکہ موجودہ کرنسی کی ثمنیت حکومت کی اصطلاح کی وجہ سے ہے نہ کہ محض عرف کی وجہ سے، اور جب یہ ثمنیت حکومت کی اصطلاح کی وجہ سے ہے تو حضرات شیخین رحمہما اللہ کے مؤقف کے مطابق بھی صرف عاقدین اس کی ثمنیت کو باطل نہیں کر سکتے اور جب عاقدین اس کی ثمنیت کو باطل نہیں کر سکتے تو حضرات شیخین رحمہ اللہ کا بھی وہی مؤقف ہو گا جو کہ امام محمد رحمہ اللہ کا ہے۔

چنانچہ شرح وقایہ میں مصنف کے قول: ’’وجاز بیع الفلس بفلسین باعیانهما خلافاً لمحمد رحمه الله‘‘پر جو حاشیہ ہے اس میں ہے:

هذا فيما يصير ثمناً باصطلاح الناس وأما الثمن الأصلي لا يبطل أبداً وأما الذي يروج رواج الثمن بتحكم السلطان كما في عصرنا القرطاس المسمات بالنوت فلا يقدر العرف على ابطاله ما لم يبطله السلطان أو لا يخرج إلى بلد لا رواج فيه أو لم ينعزل السلطان ولم يحكم به السلطان القائم. (شرح الوقاية الأخيرين: صفحه:67، مكتبه رحمانيه)

اور كفايت المفتی میں ہے:

’’سلم فی الفلوس روایات فقہیہ کی رو سے جائز ہے، فلوس کاسدہ میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔ البتہ نافقہ میں بوجہ بقائے ثمنیت وقصد ثمنیت شبہ ہے۔ فقہاء کی دلیل  لأن الثمنية تثبت في حقهما باصطلاحهما فتبطل بإبطالهما مخدوش  ہے۔ ممکن ہے کہ فقہائے کرام کے زمانے میں ایسا ہی ہو لیکن موجودہ زمانے میں مقدمہ اولیٰ کی صحت غیر مسلم ہے بلکہ  الثمنية تثبت بقانون الحكومة ولا ترتفع إلا بقانون الحكومة. اس لیے جوازِ سلم فی الفلوس النافقہ کا فتویٰ دینا مشکل ہے۔‘‘ (8/ 59، دار الاشاعت)

نوٹ: کفایت المفتی کی عبارت کو نقل کرنے سے مقصود صرف یہ جملہ ہے  ’’ الثمنية تثبت بقانون الحكومة ولا ترتفع إلا بقانون الحكومة‘‘  باقی جواز سلم فی الفلوس کا مسئلہ اس وقت زیر بحث نہیں۔

حضرت مولانا فتح محمد صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کی بات بظاہر آنجناب کی نظر سے بھی گذری ہو گی۔ اور ان حضرات کی بات کو لینے سے حضرات شیخین رحمہ اللہ کے قول کے مطابق سود کا دروازہ کھلنے کا جو اندیشہ ہے وہ بھی بالکلیہ مسدود ہو جاتا ہے اور کسی کو حضرات شیخین رحمہما اللہ کے اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ اس سب کے باوجود آپ نے ان حضرات کی اس بات  کو نہیں لیا۔

معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا آنجناب کو ان کی ذکر کردہ بات سے اتفاقی نہیں یا ان حضرات کی بات سمجھنے اور منطبق کرنے میں ہمیں کوئی غلطی لگ رہی ہے؟

امید ہے کہ آنجناب اس بارے میں اپنے رائے عالی سے آگاہ فرما کر ممنون فرمائیں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved