• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کلما کی قسم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک آن لائن اکیڈمی میں پڑھاتا تھا، تو اکیڈمی کے مالک نے میرے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ  "میں کسی طالب علم کی آئی ڈی استعمال نہیں کروں، اگر میں نے کسی بھی طالب علم کی آئی ڈی استعمال کی تو مجھے کلما کی طلاق”۔ تو میں نے اس معاہدے پر دستخط  کیے، اور انگوٹھا لگایا ۔ اب کیا میرے اوپر کلما کی طلاق واقع ہو گئی؟ اگر واقع ہو  گئی ہے تو اس کا کیا حل ہے؟ کیونکہ اب میری منگنی ہو چکی ہے، اور نومبر میں میری شادی بھی طے ہو چکی ہے۔

وضاحت: سائل نے آئی ڈی استعمال کی ہے۔ نیز معاہدہ کی فوٹو کاپی ملنا مشکل ہے۔[1]

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تعلیق منعقد نہیں ہوئی ۔لہذا نکاح کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔

توجیہ:تعلیق کی صحت کے لیے ملک یا اضافت الی الملک ضروری ہے ۔جوکہ اس صورت میں نہیں ہے ،اور تقدیری عبارت نکالنا خلاف اصل اور مبنی برضرورت ہے ۔

 ( ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك ) لأن الجزاء لا بد أن يكون ظاهرا ليكون مخيفا فيتحقق معنى اليمين وهو القوة والظهور بأحد هذين ، والإضافة إلى سبب الملك بمنزلة الإضافة إليه لأنه ظاهر عند سببه ( فإن قال لأجنبية : إن دخلت الدار فأنت طالق ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق ) لأن الحالف ليس بمالك ولا أضافه إلى الملك أو سببه ولا بد من واحد منهما فتح القدير – (ج 8 / ص 288)

وكان سبب عدول المصنف عنه أنهم دفعوا الوارد على قولهم في قوله للأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق فتزوجها فدخلت لا تطلق من أنه لم يعتبر تمام الكلام مضمرا تصحيحا ، والتقدير إن تزوجتك فدخلت حتى يصح ويقع به كما قال به ابن أبي ليلى لأن اليمين مذموم في الشرع أو غير مطلوب فلا يحتال في تصحيحه۔  فتح القدير (8/290)

ومعناه أن اللفظ إذا كان عاما يجوز تخصيصه بالعرف، كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الاسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الزيادة الخارجة عن اللفظ كما لو قال لاجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو، ولا يصح إرادة الملك، أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لان ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا.شامی

إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال: جعلت كلما أو عليّ كلما، أنه طلاق ثلاث معلق، و هذا باطل و من هذيانات العوام، فتأمل. (4/ 444) فقط و الله تعالی أعلم

[1]۔  مفتی رفیق صاحب کی رائے

 "اگر میں نے کسی بھی طالب علم کی آئی ڈی استعمال کی، تو مجھے کلما کی طلاق”۔

مذکورہ جملے میں "مجھے کلما کی طلاق” کا جملہ ایک عنوان ہے، جس کا معنون یہ جملہ ہے "جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں، تو اسے طلاق”، چنانچہ عرف میں کہا جاتا ہے کہ "فلاں نے اپنی بیوی کو کلما کی طلاق دیدی”۔

اس کی نظیر فقہاء کرام کا یہ جملہ ہے "أنت طالق ثلاثاً للسنة”. یہ جملہ خواہ مدخول بہا کو کہا ہو، یا غیر مدخول بہا کو ہو۔ اس سے تین متفرق طلاق واقع ہوں گی، اکٹھی تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی، گویا کہ "أنت طالق ثلاثاً للسنة” کا جملہ کہنا ایسے ہے، جیسے اس نے یہ جملہ کہا ہو: "أنت طالق ثلاثاً في ثلاثة أطهار”۔ جیسے  اس جملے میں ” للسنة” کا لفظ ایک عنوان ہے، اور "في ثلاثة أطهار” اس کا معنون ہے، ایسے ہی "کلما کی طلاق” ایک عنوان ہے، اور "جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق” یہ جملہ معنون ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں آپ جب بھی کسی عورت سے نکاح کریں گے تو اس عورت کو ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی، اور نکاح ختم ہو جائے گا۔

چنانچہ شامی میں ہے:

قال لموطوءته و هي …. ممن تحيض أنت طالق ثلاثاً … للسنة، و قع عند كل طهر طلقة … فلو كانت غير موطوءة … تقع واحدة للحال، ثم كلما نكحها.

قوله: (للسنة) اللام فيه للوقت و ليست اللام بقيد فمثلها في السنة، أو عليها، أو معها، و كذا السنة ليست بقيد بل مثلها في معناها كطلاق العدل، و طلاقاً عدلاً، و طلاق العدة، أو للعدة، و طلاق الدين، أو الإسلام … أو طلاق الحق، أو القرآن، أو الكتاب. (4/ 426)

طلاق سے بچنے کا حل اور طریقہ یہی ہے کہ کوئی ایسا شخص جو آپ کی صورتحال سے واقف ہو، بالخصوص کوئی عالم دین ہو، تو اور بہتر ہے، وہ آپ کے کہے بغیر آپ کا نکاح کرا دے، پھر جب آپ کو اس نکاح کی خبر پہنچے تو آپ زبان سے اجازت نہ دیں، بلکہ صرف تحریری اجازت دیں، یعنی صرف کسی کاغذ پر زبان سے کہے بغیر یوں لکھ دیں کہ "مجھے یہ نکاح قبول ہے”، اور یہ کاغذ بیوی کو بھی نہ بھیجیں بلکہ اپنے پاس رکھیں، ایسا کرنے سے نکاح بھی ہو جائے گا اور  طلاق بھی واقع نہ ہو گی۔

البتہ یہاں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ "جعلت كلما” يا "علي كلما” ایک لغو اور مہمل کلام ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال: جعلت كلما أو عليّ كلما، أنه طلاق ثلاث معلق، و هذا باطل و من هذيانات العوام، فتأمل. (4/ 444)

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً تو علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہاں صرف لفظ "کلما” کے بارے میں مذکورہ بات لکھی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خالی "کلما” میں اور  "کلما کی طلاق” کے الفاظ میں فرق ہے۔ کہ خالی "کلما” کا لفظ عرف میں کلما کی طلاق کا عنون نہیں، جبکہ "کلما کی طلاق” کا لفظ کلما کی طلاق کے عنوان کے طور پر عرف میں استعمال ہوتا ہے۔

اور ثانیاً اس عبارت کے آخر میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے "فتأمل” کا لفظ لکھا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود علامہ شامی رحمہ اللہ کو بھی پوری تسلی نہیں۔

اور ثالثاً علامہ شامی رحمہ اللہ کی یہ  بات در اصل "باب الصریح” کے ذیل میں ہے، جس میں علامہ شامی رحمہ اللہ  یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ  لفظ "کلما” نفسِ طلاق کے لیے نہ صریح ہے، نہ کنایہ ہے۔ اس میں  ہمیں بھی کوئی اشکال نہیں، علامہ شامی رحمہ اللہ کی اس بات  کا  یہ مطلب نہیں کہ لفظ ” کلما” کا استعمال لفظ” طلاق” کے ساتھ ہو، جیسا کہ لفظ "کلما کی طلاق” کے جملے میں، تو پھر بھی یہ لغو شمار ہو گا اور اس کا کوئی مطلب نہ ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved