- فتوی نمبر: 13-97
- تاریخ: 13 جنوری 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص یونیورسٹی میں کنٹین کا مالک ہے میں اس کے ساتھ مل کرکام کرنا چاہتا ہوں کا م کی صورت یہ ہے کہ میں وہاں باربی کیو (سیخ کباب،تکے)بنا کر بیچوں گا آلات ،سامان اور عمل میرا ہو گا جبکہ دکان اور انتظامی امور آرڈر لینا پیسے لینا وغیرہ کنٹین کے مالک کے ذمے ہوں گے وہ آرڈر لے کر پرچی میرے پاس بھیج دے گا میں سامان تیار کردوں گا میں نے اس سے کہا کہ معاملہ کرایہ پر طے کر لو اس نے کہا کہ کسی دن سیل زیادہ ہوتی ہے تو پھر دل میں یہ آئے گا کہ یہ کرایہ کم دیتاہے جبکہ اس کی سیل زیادہ ہوتی ہے اس لیے یوں کرتے ہیں کہ سیل کا بیس یا تیس فیصد میرا ہو گا باقی تمہاراکیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ طریقے سے معاملہ کرنا جائز ہے اس کی توجیہ یہ ہے کہ مالک دکان لوگوں سے ایک مخصوص قیمت مثلا سو روپے پر خود آرڈر لیتا ہے اور پھر آگے اس شخص سے وہ چیز تیار کروا کر گاہک کوفراہم کرتا ہے اور مالک نے اس شخص سے یوں طے کیا ہواہے کہ مثلا جو چیز گاہک کو میں سو روپے کی دوں گا وہ تم سے بیس یا تیس فیصد کم یعنی80یا 70میں لوں گا۔لہذا یہ ایک صانع کا دوسرے صانع سے استصناع کا معاملہ ہوا ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved