• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کم ریٹ پرچیزکی واپسی کرنا

استفتاء

ہم میڈیکل سٹور پر دوائیاں بیچتے ہیں اور ٹوٹل بل بننے پر رعایت بھی کرتے ہیں جو کہ مخصوص نہیں ہے جتنی چاہے کردیتے ہیں اور جب گاہک دوائیاں واپس کرنے کے لیے آتا ہے تو پرنٹ ریٹ کے مطابق پورے پیسے  وصول کرتے ہیں اب ہم نے لکھ کر لگایا ہے کہ جو بھی دوائی واپس کرنے آئے گا تو ہم ریٹ سے  10 فیصد   کم میں واپس کریں گے تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

افضل تو یہ ہے کہ پرنٹ ریٹ کے مطابق جتنی رعایت کی ہے اس کے مطابق واپس کرلیں خواہ وہ رعایت 10 فیصد سے کم ہو یا زیادہ تاہم پرنٹ ریٹ سے10فیصد کم پر واپسی کا لکھ دینا اور پھر اس کے موافق واپس کر لینا بھی درست ہے۔

توجیہ : اقالہ  کے بارے میں اگرچہ راجح قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے کہ اقالہ عاقدین کے حق میں فسخ ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ  واپسی اسی قیمت پر ہو ، لیکن امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک  اقالہ ایک نئی بیع (نیا سودا )ہے جو خریدار سے لی گئی قیمت سے کم وبیش میں بھی درست ہے   آجکل چونکہ اقالہ خریدار سے لی گئی قیمت سے  کم وبیش میں کیا جاتا ہے اس لیے ان کے قو ل کو لیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ہمارے عرف میں اقالہ کے لیے الگ سے کوئی لفظ  مقرر نہیں ہے بلکہ  اس کے لیے واپس کرنے کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے اس لیے واپس کرنے کو اقالہ پر ہی محمول کریں گے اور یہ عربی کے لفظ رد یاتراد  کی طرح فسخ  بیع پر محمول نہیں ہو گا

بدائع الصنائع (5/ 306)  میں ہے

وثمرة هذا الاختلاف إذا تقايلا ولم يسميا الثمن الأول أو سميا زيادة على الثمن الأول أو أنقص من الثمن الأول أو سميا جنسا آخر سوى الجنس الأول قل أو كثر أو أجلا الثمن الأول فالإقالة على الثمن الأول في قول أبي حنيفة رحمه الله وتسمية الزيادة والنقصان والأجل والجنس الآخر باطلة سواء كانت الإقالة قبل القبض أو بعدها والمبيع منقول أو غير منقول لأنها فسخ في حق العاقدين والفسخ رفع العقد والعقد وقع( رفع)بالثمن(الثمن) الأول فيكون فسخه بالثمن الأول ضرورة لأنه فسخ ذلك العقد….وفي قول أبي يوسف إن كان بعد القبض فالإقالة على ما سميا لأنها بيع جديد كأنه باعه فيه ابتداء

حاشيۃ ابن عابدين (5/ 124) میں ہے

قوله ( فسخ في حق المتعاقدين )  …… والصحيح قول الإمام كما في تصحيح العلامة قاسم

الفقہ الاسلامي وأدلتہ للزحيلي (5/ 3783)میں ہے

وقال مالك: الإقالة بيع جديد، فيجوز فيها الزيادة أو النقصان. كما إذا باع شيئاً بمئة دينار، ثم ندم البائع، فطلب من المشتري رد المبيع على أن يدفع إليه عشرة دنانير مثلاً؛ لأن الإقالة حينئذ بيع مستأنف، وعمل الناس في أيامنا على هذا الرأي، فلايرضى البائع بنقض البيع إلا إذا تنازل المشتري عن شيء من حقه… وعلى قول أبي يوسف: تصح الإقالة بما ذكرا من الثمن، وشرطامن الزيادة والنقصان والأجل، لأنها بيع جديد.وعلى قول محمد إذا كانت الإقالة بغير الثمن الأول، أو بأكثر منه فهي بيع إذ لا يمكن جعلها فسخاً؛ لأن شأن الفسخ أن يكون بالثمن الأول، وإن كانت بمثل الثمن الأول أو أقل فهي فسخ بالثمن، ويبطل شرط النقصان، وكذلك إن أجل يبطل الأجل

امداد الفتاوی( 70/3) میں ہے

اقالہ یہ ہے کہ ایک بیع تام ہوگئی ،پھر مشتری یا بائع پچھتایا اور دوسرے سے واپسی مبیع کی درخواست کی ،اور اس نے خوشی سے واپس کرلیا۔

عزیز الفتاوی (ص 599 )میں ہے

واپس کرنا اقالہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی ا علم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved