• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کمیشن لیے ہوئے پیسوں سے حاصل شدہ پیسوں کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں :

زید ایک سرکاری ملازم ہے دفتر میں کام کرتا ہے جس کی اس کو تنخواہ ملتی ہے ۔دفتر کے اندر کا م کرنے والے لوگوں میں ایک چیز کمیشن کے نام سے چلتی ہے او راس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ دفتر کے جو کام پرائیویٹ ٹھیکہ داروں کو دیتے ہیں اس میں دفتر والے ٹھیکہ دار سے ساز باز کر کے اپنی کمیشن رکھوالیتے ہیں ۔

زید کے 3بیٹے اور 4بیٹیاں بھی ہیں اور اسی تنخواہ اور کمیشن کے پیسوں سے گھر کا خرچہ چلاتا ہے۔1994میں ایک پلاٹ انہی پیسوں سے لیا جس کی قیمت 2014میں ایک کروڑ لگی اور بک گیا اور اس کو زید نے کاروبار میں لگا لیا ہے اور اس میں کبھی نفع نقصان ہوتا رہا ۔ اس وقت زید کے سب لڑکے لڑکیاں شادی شدہ ہیں ۔

اب بھی زید کی سرکاری نوکری تو ہے مگر 3سال سے ڈیوٹی پر نہیں جاتے گھر پر تنخواہ مل جاتی ہے جب کبھی تنخواہ بند ہو جائے تو کچھ دن کے لیے چلے جاتے ہیں ۔مندرجہ بالا تفصیل کے بعد چند مسائل دریافت کرنے ہیں :

1۔دفتر والوں کا ایسی کمیشن لینا کیسا ہے ؟

2۔کمیشن کے پیسوں سے جو پلاٹ لیا تھا اس کا جو اتنے سال بعد نفع ہوا،اس نفع کا کیا حکم ہے؟

3۔زید اپنے اس مال کی زکوۃ بھی ادا کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ایسے مال پر زکوۃ ہے کہ نہیں ؟

4۔زید کا بیان کردہ صوت میں تنخواہ لینا کیسا ہے ؟

5۔زید کا یہ مال ودولت اس کی اولاد کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

6۔زید کے اس مال میں میراث جاری ہو گی یا نہیں ؟

7۔زید کی اولاد کے لیے کیا حکم ہے کہ والد سے الگ ہو کر اپنا کچھ اور کمائیں یا والد کے ساتھ اس مال میں شریک رہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :

1۔سائل کا زید سے کیا تعلق ہے اور سائل یہ سوال کیوں پوچھنا چاہتا ہے؟

2۔دفتر والوں کے بارے میں سوال پوچھنے کا کیا مقصد ہے؟

3۔کیا پلاٹ صرف کمیشن کے پیسوں سے خریدا گیا یا اس میں تنخواہ کی رقم بھی شامل تھی ؟اگر تنخواہ کی رقم بھی شامل تھی دونوں کا کچھ تنا سب ظن غالب کے درجے میں معلوم ہے یانہیں؟

4۔شادی شدہ اولاد کو یہ مال استعمال کرنے کی کیا وجوہات ہیں ؟

5۔اولاد کے ذرائع  آمدن کیا ہیںان کے اخرات کیا ہیں ؟

6۔کیا زید کے اس کے علاوہ بھی ذرائع  آمدن ہیں ؟اگر ہیں تو کیا ہیں اور ان کا تناسب کیا ہے ؟نیز دفتر میںاصل کام کیا ہے اور اس کی اصل تنخواہ کتنی ہے ؟اور کمیشن کے نام سے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس کا تفصیلی طریقہ کیا ہے؟

ازدارالافتاء والتحقیق

جواب وضاحت :

1۔سائل زید کا بیٹا ہے ،مقصد اس سوال سے اپنے لیے اس مال کے استعمال کا جواز یا عدم جواز معلوم کرنا ہے اور اپنے والد کو بھی اس دلدل سے نکالنے کی کوئی راہ سوچنا ہے ۔

2۔چونکہ سائل کا والد دفتر سے متعلق ہے لہذا اسی تعلق کی وجہ سے دفتر والوں سے متعلق سوال کیا ۔

3۔پلاٹ خریدنے میں غالب کمیشن والی رقم تھی اور کچھ تنخواہ کی رقم بھی اس میں شامل تھی لیکن وہ مغلوب تھی ۔

4۔شادی شدہ دو بیٹوں کا ذریعہ  آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ باپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں ایک بیٹا ملازمت کی وجہ سے جدا رہتا ہے لیکن اس کی بیوی وہاں یعنی والد کے پاس ہی رہتی ہے اسی اجتماعی  آمدن سے کھاتی پیتی ہے اور یہ باہر رہنے والا بیٹا بھی جب  آتا ہے تو گھر میں ہی کھاتا پیتا ہے اور اولاد میں سے دوتو فارغ ہیں اور ایک کہیں ملازمت کرتا ہے لیکن اس کی  آمدن اسی کے استعمال میں رہتی ہے ،گھر نہیں پہنچتی بلکہ اس کی بیوی بھی گھر کی  آمدن میں سے اپنا گذر بسر کرتی ہے ۔

5۔زید کی اس وقت کا جو ذریعہ  آمدن ہے وہ پراپرٹی ڈیلر کا کام ہے لیکن اصل مال وہی تقریبا ایک کروڑ تھا اسی کو تجارت میں استعمال کرتے رہے زمین لیتے ہیں بیچ دیتے ہیں ،ڈیوٹی پر جاتے ہی نہیں،تنخواہ گھر بیٹھے مل جاتی ہے ،تقریباتریسٹھ ہزار روپے ہے۔ کمیشن کی تفصیل یہ ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے جو بھی ٹینڈ ر پاس ہوتا ہے پھردفتر والے پرائیویٹ ٹھیکہ داروں کو کام دیتے ہیں تو اس میں ان کی اپنی کمیشن ہوتی ہے،یعنی دفتر والے کہتے کہ ہمیں اتنا دو گے تو ہم بل پاس کروائیں گے ، آپ کے پھر اس کوافسران نیچے والے سب اپنی پر سنٹیج کے مطابق تقسیم کرتے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔جائز نہیں ۔

2اس پلاٹ میں کمیشن سے حاصل کی ہوئی جتنی رقم تھی اتنی مقدار صدقہ کردیں ،باقی نفع کو صدقہ کرنا ضروری نہیں ۔

3۔حلال مال کے بقدر زکوٰۃ ہے اور حرام مال سارا کا سارا واجب التصدق ہے ۔

4۔تنخواہ لینا جائز ہے ۔

5۔جو بچ سکتا ہے وہ بچ جائے اور جس کو مجبوری ہو وہ استعمال کرسکتا ہے ۔

6۔حلال مال کے بقدر میراث جاری ہو گی اور باقی واجب التصدق ہو گا۔

7۔اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنا کمانے کی سنجیدہ کوشش کریں البتہ جب تک کوشش میں کامیاب نہ ہو ں اس وقت تک بأمر مجبوری اس مال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved