- فتوی نمبر: 24-394
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا بیع ،اجارے یا وکالت کی درج ذیل تین صورتیں جائز ہیں:
1۔مال تجارت کا رأس المال مالک کےلیے مقرر ہو اور نفع میں مالک اورعمیل (یا مالک اور وکیل )دونوں نصف نصف میں شریک ہوں مثلازید نے ایک گھڑی 100روپے میں خریدی تھی پھر عمر نے وہ گھڑی زید کےلیے وکالتا 120 روپیہ میں بیچی ،110روپیہ(رأس المال اور نصف نفع)زید کو مل گئے اور 10روپیہ عمر کو مل گئے۔
2۔رأس المال اورمعلوم نفع مالک کےلیے مقرر کیاجائے اوراس سے زیادہ وکیل کےلیے مقرر کیا جائے مثلا زید نے ایک گھڑی 100روپیہ میں خریدی پھر عمر سے کہا کہ یہ گھڑی میرے لیے وکالتا فروخت کردو ،110میرے ہوں گے اوراس سے زیادہ رقم آپ کی ہو گی ۔
نوٹ: اس صورت میں عمر یہ گھڑی 110روپیہ سے زیادہ رقم میں فروخت کرتا ہے۔
3۔رأس المال سے بھی کم حصہ مقرر کیا جائے اور اس سے زائد رقم مزدو ریا وکیل کے لیے مقرر کی جائے مثلا زید نے ایک گھڑی 100روپیہ میں خریدی پھر عمر سے کہا کہ یہ گھڑی میری طرف سے وکالتا فروخت کردو صرف 90روپیہ میرے ہوں گے اور اس سے زیادہ رقم آپ کی ہو گی ۔
نوٹ:تیسری صورت میں اگر وہ گھڑی 90روپیہ سے کم میں فروخت ہوتی ہو یا 90ہی میں فروخت ہوتی ہو تو مالک وکیل کو کہتا ہے کہ جتنے میں آپ کو مناسب لگے فروخت کردو پھر میں آپ کو کچھ رقم دیدوں گا اورعمر اس پر راضی ہوتا ہے۔
ان تمام صورتوں میں سے کوئی صورت جائز نہ ہو تو اس کی متبادل صورت بھی بتائی جائے ۔
جوابات عربی حوالوں کےساتھ دیئے جائیں ۔سائل عبداللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2۔مذکورہ دونوں صورتیں حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہیں البتہ حنابلہ کے نزدیک جائز ہیں جس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن سیرین رحمہ اللہ کے قول سے بھی ہوتی ہے آجکل ان صورتوں کا بعض چیزوں میں رواج بھی ہے لہذا جہاں رواج ہو تو حنابلہ کے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں عرف ورواج نہ ہو تو اس سے احتراز کیا جائے ۔
3۔ یہ صورت بھی نمبر 2 کی طرح ہی ہے البتہ یہ طے کرنا کہ 90 یا اس سے کم میں فروخت ہو تو کچھ نہ کچھ دے دوں گا جائز نہیں بلکہ ایسی صورت میں(یعنی جب پتا ہو کہ یہ چیز کم میں ہی بکے گی) اجرت کی کوئی فکس مقدار طے کر لی جائے ۔
شرح مجلة(2/ 662) میں ہے:
دفع الی رجل ثوبا وقال بعه بعشرة فما زاد فهو بینی وبینک قال ابو یوسف رحمه الله ان باعه بعشرة او لم یبعه فلا اجر له وان تعب فی ذلک
صحيح البخاري- طوق النجاة (3/ 92) میں ہے:
باب أجر السمسرة ولم ير ابن سيرين وعطاء وإبراهيم والحسن بأجر السمسار بأسا وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به وقال النبي صلى الله عليه وسلم المسلمون عند شروطهم
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (18/ 285، بترقيم الشاملة آليا) میں ہے:
وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك
هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه
وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به
هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين وفي ( التلويح ) وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع وممن كرهه الثوري والكوفيون وقال الشافعي ومالك لا يجوز فإن باع فله أجر مثله وأجازه أحمد وإسحاق وقالا هو من باب القراض وقد لا يربح المقارض
فتح الباري – ابن حجر (4/ 451) میں ہے:
قوله وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك وصله ابن أبي شيبة من طريق عطاء نحوه وهذه أجر سمسرة أيضا لكنها مجهولة ولذلك لم يجزها الجمهور وقالوا إن باع له على ذلك فله أجر مثله وحمل بعضهم إجازة ابن عباس على أنه أجراه مجرى المقارض وبذلك أجاب أحمد وإسحاق ونقل ابن التين أن بعضهم شرط في جوازه أن يعلم الناس ذلك الوقت أن ثمن السلعة يساوي أكثر مما سمي له وتعقبه بأن الجهل بمقدار الأجرة باق قوله وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فلك أو بيني وبينك فلا بأس به وصله ابن أبي شيبة أيضا من طريق يونس عنه وهذا أشبه بصورة المقارض من السمسار
شرح صحيح البخارى ـ لابن بطال (6/ 402) میں ہے:
وأما قول ابن عباس : ( بع هذا الثوب فما زاد على كذا فهو لك ) . وقول ابن سيرين : ( بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك ، أو بينى وبينك ) . فإن أكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع ، وممن كرهه النخعى والحسن والثورى والكوفيون ، وقال مالك والشافعى : لا يجوز ، فإن باع فله أجر مثله . وأجازه أحمد وإسحاق ، وقالا : هو من باب القراض ، وقد لا يربح المقارض
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (5/ 3326) میں ہے:
بيع السمسرة: السمسرة: هي الوساطة بين البائع والمشتري لإجراء البيع. والسمسرة جائزة، والأجر الذي يأخذه السمسار حلال؛ لأنه أجر على عمل وجهد معقول، لكن قال الشافعية: لا يصح استئجار بيّاع على كلمة لا تتعب، وإن روّجت السلعة؛ إذ لا قيمة لها (2). ولا بأس أن يقول شخص لآخر: بع هذا الشيء بكذا، وما زاد فهو لك، أو بيني وبينك، لما رواه أحمد وأبو داود والحاكم عن أبي هريرة: «المسلمون على شروطهم».
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved