- فتوی نمبر: 29-235
- تاریخ: 22 جولائی 2023
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
***میں ایک ہوٹل ہے جس میں مختلف لوگوں کے مختلف کمرے ہیں ، ہوٹل کی انتظامیہ مالک سے یہ معاہدہ کرتی ہے کہ ہم آپ کا کمرہ فی رات 25000 روپے کرایہ پر دیں گے اور مہینے کے آخر میں جتنی راتیں وہ کمرہ کرایہ پر دیا گیا ہوگا ان تمام راتوں کا کرایہ ہوٹل انتظامیہ اور مالک کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو گا ،مثلاً 20 راتوں کا 5 لاکھ بنتا ہے تو اس میں سے 2.5 لاکھ مالک کا ہو گا اور 2.5 لاکھ انتظامیہ کا ہو گا ۔غرض جتنی راتیں کمرہ کرایہ پر دیا گیا ہوگا وہ سارا کرایہ دونوں میں تقسیم ہو گا ۔
کیا یہ صورت جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جائز ہے۔
توجیہ: ہوٹل کی انتظامیہ وکیل بالاجرت ہےاجرت حاصل ہونے والے کرائے کا مخصوص فیصدی حصہ ہے جو اگرچہ اپنی اصل وضع کے لحاظ سے جائز نہیں ہے لیکن عرف کی وجہ سے اجرت کی اس صورت کا تحمل کیا جاتاہے۔
شامی (9/87) میں ہے:
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام
امداد الفتاویٰ (7/353) میں ہے:
سوال: بعض جگہ دلالوں کی دلالی فی روپیہ ایک پیسہ مقرر ہے یعنی جتنے روپے کا کپڑا فروخت کردیں فی روپیہ ایک پیسہ دلالی لے لیتے ہیں ایسی دلالی جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جب اس اجرت کا جواز ثابت ہوگیا اور اس کے شرائط میں سے تعیین اجرت ہے اور تعیین کی یہ بھی ایک صورت ہے اس لیے جائز معلوم ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved