- فتوی نمبر: 34-69
- تاریخ: 15 اکتوبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > لباس و وضع قطع
استفتاء
1۔کیا کندھوں تک بال رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت ہے؟
2۔کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی بڑے بال رکھا کرتے تھے ؟
3۔کیا یہ بات درست ہے کہ 40 سال کے بعد کندھے تک بال رکھ سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔بال رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل عادت تھی یعنی حج اور عمرہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بال منڈوانا (حلق کروانا )ثابت نہیں ۔تاہم یہ بال مستقل طور پر کندھوں تک رہتے ہوں ایسا نہیں بلکہ بعض احوال میں بال کندھوں تک ہو جاتے تھے اور بعض احوال میں وہ کانوں کی لو تک ہوتے تھے اور بعض احوال میں کانوں کی لو اور کندھوں کے درمیان تک ہوتے تھے۔
2۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اکثر وبیشتر بڑے بال رکھتے تھے۔
3۔یہ بات فی نفسہ تو درست نہیں البتہ کسی عارض کی وجہ سے درست ہو سکتی ہے مثلاً 40 سال سے پہلے عموما ً زیب وزینت اور بننے سنورنے کا جذبہ غالب رہتا ہے جس کی وجہ سے محض سنت کی نیت سے بال رکھنے کا جذبہ مغلوب ہو جاتا ہے۔ جبکہ 40 سال کے بعد عموما زیب و زینت کا جذبہ مغلوب ہو جاتا ہے لہذا ایسے عوارض کی وجہ سے اگر کوئی مذکورہ بات کہے تو وہ درست ہو سکتی ہے ورنہ فی نفسہٖ یہ بات درست نہیں۔
شمائل ترمذی(3/1435) میں ہے:
43-حدثنا علي بن حجر قال: أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن حميد، عن أنس بن مالك قال: «كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نصف أذنيه
45- عن عائشة، قالت: «كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة»
46- عن البراء بن عازب قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مربوعا، بعيد ما بين المنكبين، وكانت جمته تضرب شحمة أذنيه»
مرقاۃ المفاتیح (10/464) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنه قال كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من اناء واحد، وكان له شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم فوق الجمة ودون الوفرة ولعل اختلاف الروايات باعتبار اختلاف الحالات
بذل المجہود (17/72) میں ہے:
عن البراء رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم له شعر يبلغ شحمة اذنيه والاختلاف الواقع في الروايات في شعره صلى الله عليه وسلم مبني على اختلاف الاحوال والاوقات فوقتا ومرة يكون هكذا مرة هكذا
مصنف ابن ابى شیبہ(5/ 187 ) میں ہے:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن أبي إسحاق، عن هبيرة، قال: «كان لعبد الله شعر يصفه، على أذنيه
مصنف ابن ابى شیبہ (14/ 53 ) میں ہے:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا مالك عن كامل عن حبيب قال: كأني أنظر إلى ابن عباس (وله) جمة (فينانه).
عمدۃ القاری (25/302) میں ہے:
كان في عهد الصحابة لا يحلقون رؤوسهم إلا في النسك أو الحاجة، وأما هؤلاء فقد جعلوا الحلق شعارهم، ويحتمل أن يراد به حلق الرأس واللحية وجميع شعورهم
فتح الباری لابن حجر (13/537) میں ہے:
السلف كانوا لا يحلقون رؤوسهم إلا للنسك أو في الحاجة والخوارج اتخذوه ديدنا فصار شعارا لهم وعرفوا به قال ويحتمل أن يراد به حلق الرأس واللحية وجميع شعورهم
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/430) میں ہے:
(قال علي: فمن ثم) : أي: من أجل أني سمعت هذا التهديد والوعيد الشديد (عاديت رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث أنه كان يجز شعره، وقيل: عاديت رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره “. قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة ; لأنه صلى الله عليه وسلم قرره، ولأن عليا رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.
ولا يخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفا لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك – يكون رخصة لا سنة، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام
خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی (ص:34) میں ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پنٹھوں کی مقدار میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا اور ان میں کچھ تعارض نہیں،اس لئے کے بال بڑھنے والی چیز ہے، ایک زمانے میں اگر کان لو تک تھے تو دوسرے زمانے میں اس سے زائد، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر منڈانا چند مرتبہ ثابت ہے، تو جس نے قریب کا زمانہ نقل کیا اس نے چھوٹے بال نقل کیے اور جس نے بال منڈے ہوئے عرصہ ہو جانے کے وقت کو نقل کیا اس نے زیادہ بال نقل کیے بعض علماء نے اس طرح پر بھی جمع فرمایا کہ سر مبارک اگلے حصہ کے بال نصف کانوں تک پہنچ جاتے تھے اور وسط سر کے اس سے نیچے تک اور اخیر سر کے مونڈھوں کے قریب تک۔
امداد الفتاویٰ جدید (9/324) ميں ہے:
الجواب: (1) سنت دو قسم است: سنتِ عبادت و سنتِ عادت (۲) مطلق لفظ سنت بر قسم اول اطلاق کرده می شود و استحقاق و وعده ثواب و ترغیب بداں ہمیں قسم منوط است و قسم ثانی ہم خالی از برکت و دلیل محبت بودن نیست؛ لیکن مقصود جز و دین نه باشد و اگر این قسم مخل امری از مقاصد دین در حق شخص شود او را ازان باز داشته شود پس باید دانست کہ موئی داشتن بر سر سنت از قسم ثانی ست بلا سبب حکم بکر ابتش کردن مورد ادب و موجب معصیت است و اگر بوجے معتد بہ چنانکہ کسے را از موئے سر داشتن انہماک در تربین پیش آید یا وسوسہ در وصول آب در حالت غسل از جنابت دغدغہ کند در حق ایس کس لا شک کہ سترونش اولیٰ گفتہ شود و داشتن را مگر وہ بمعنے خلاف اولیٰ گفتن صحیح باشد، چنانچہ حضرت علی کہ از خلفائے راشدین ہیں کہ با تباع ایشان ما را امر فرمودہ شدہ (۱) خود می فرمایند کہ ہرگاہ و عید آب نرسیدن در جناب شنیدم سر خود را دشمن داشتم (۲) خلاصہ جواب آنکہ ایں موئے داشتن فی نفسه اولیٰ ہے مگر جزو دین نہیں اور لعارض خلاف اولیٰ ۔
خلاصہ ترجمۂ جواب: سنت کی دو قسمیں ہیں: (۱) سنت عبادت (۲) سنت عادت ۔ مطلق لفظ سنت پہلی قسم کے لئے بولا جاتا ہے، اور ثواب کا حقدار ہونا اور ثواب کا وعدہ اور اس کی ترغیب اسی پہلی قسم سے متعلق ہے اور دوسری قسم بھی برکت سے خالی نہیں ،بلکہ یہ حضورصلی اللہ علیہ سلم سےمحبت کی دلیل ہے، مگر دین میں مقصود نہیں ہوگا اور اگر یہ قسم کسی شخص کے حق میں مقاصد دین میں سے کسی چیز میں مخل بن رہی ہو تو اس کو قسم ثانی اختیار کرنے سے روکا جائے گا۔ اب یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سر کے بال رکھنا دوسری قسم یعنی سنت عادت میں سے ہے، بلا کسی وجہ کے اس کی کراہت کا حکم لگانا بے ادبی اور گناہ کا باعث ہے، اور اگر کوئی قابل قبول وجہ ہو جیسے کہ اگر کوئی سر کے بال رکھتا ہے تو اس کو بہت زیادہ سنوارنے اور بنانے میں لگ جاتا ہے، یا کسی کو غسل جنابت کے وقت پانی کے پہنچنے اور نہ پہنچنے میں شک و وسوسہ پیدا ہوتا ہو تو ایسے لوگوں کے لئے یقینا بال کے کٹوانے کو ہی بہتر کہا جائے گا اور رکھنے کو مکروہ یعنی خلاف اولی کہنا صحیح ہوگا،چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو کہ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ خود فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کی کھال تک پانی نہ پہنچنے سے متعلق وعید سنی ہے تب سے میں اپنے سر کے بالوں کا دشمن ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved