- فتوی نمبر: 15-130
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا نام عبد اللطیف ولدمحمد ابراہیم ہے۔جناب مفتی صاحب !میں نے ایک آدمی کے ساتھ کاروبار کیا، کچھ رقم 1370000 گاڑی کے لئے دی اور کچھ رقم1400000 پلاٹ کے لیے، کچھ عرصہ بعد پلاٹ فروخت کیا گیا تو اس نے کہا کہ پلاٹ میں آپ کے حصے میں500000 پانچ لاکھ نفع آیا ہے، کل رقم1900000 روپے ہوگئی، میں نے کہا کہ آپ مجھے رقم واپس کردیں، کچھ عرصہ بعد اس نے کہا کہ رقم نہیں ملی، اس کے بدلے میں آپ کے حصے میں 12 مرلے جگہ ملی ہے۔ میں نے رقم کا مطالبہ کیا اس نے کہا اس پلاٹ سے آپ کو بہت اچھا نفع ملے گا ۔کچھ عرصہ بعد میں نے کہا کہ پلاٹ فروخت کردیں اس نے کہا کہاپلاٹ نقصان میں بک رہا ہے، میں نے اسے فروخت کرنے سے منع کردیا، میں نے خود بیچنے کے لیے دوست سے بات کی اور اس سے کاغذات لیے، جب ہم وہاں گئے تو دیکھا کہ اس میں سے چار مرلے اور پانچ مرلے کے دو پلاٹ بناکر پیچ دیئے ہیں اور تین مرلے بچے ہیں، جب اس سے رابطہ کیا تو کہنے لگا مجھے ضرورت تھی، میں نے اس کے گھر والوں کو بلایا ان کے سامنے بات کی اور وہ مجھے مسجد میں لے گیا اور کہا کہ مجھے مجبوری تھی، میں نے بیچ دیا مگر میں آپ کو نفع کے ساتھ پیسے دونگا اور باقی تین مرلے بیچ کر میں آپ کو اس کی رقم دے دیتا ہوں۔ کچھ عرصہ بعد اس نے فون کیا کہ تین مرلے پانچ لاکھ میں بک رہے ہیں، مجھے ضرورت تھی ،میں نے کہا بیچ دیں اس کا ایک لاکھ روپیہ بیعانہ لے کر مجھے بھیج دیا اور تین ماہ کا وقت لیا ،تین ماہ بعد جب رابطہ کیا تو کہنے لگا کہ پارٹی بھاگ گئی ہے ، میں نے کہا کہ آپ مجھے تین مرلے کی رجسٹری میرے نام کردیں ،میں دو دفعہ اس کے پاس گیا مگر وہ بہانے بناتا رہا، جب میں نے دوبارہ اس کے گھر والوں سے بات کی تو کہنے لگا میں نے وہ بھی رقم استعمال کر لی ہے،اب کہتا ہے کہ مجھے کاروبار میں نقصان ہوا ہے۔
آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اس کے نقصان میں شامل ہو ں گا؟ جب کہ میں نے اسے اپنی رقم مزید کاروبار میں لگانے سے منع کیا تھا، خود وہ بہترین زندگی گزار رہا ہے ،چار گاڑیاں ہیں، جب کہتے ہیں گاڑیاں تیری ہیں؟ کہتا ہے کسی کی ہیں۔ مہربانی فرما کر میرے رہنمائی فرمائیں۔
فریق اول :****************
فریق دوئم:****************
تاریخ:4شعبان المعظم بمطابق 10اپریل 2019
فریق دوم سے رابطہ کیا گیا اس نے فرصت کے وقت میں خود رابطہ کرنے کا کہا ہے تب تک اگلی کاروائی موقوف ہے
10شعبان العظم بمطابق 16اپریل 2019
فریق دوم سے بار بار رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے لیت ولعل ہوئی کوئی سنجیدہ جواب سامنے نہیں آیا ۔تقاضے کے باوجود کوئی وضاحت یا تحریری موقف بھی نہیں دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(از۔ دارالافتاء والتحقیق)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر فریق ثانی نے فریق اول کی رقم ابتداً اپنے ذاتی استعمال میں لگالی ہو تو فریق ثانی اصل رقم کے دینے کا ذمہ دار ہے لیکن کسی کی رقم کو اس کی اجازت کے بغیر ذاتی استعمال میں لانا حرام ہوتا ہے لہذا اس گناہ پر توبہ و استغفار بھی کریں اور اگر فریق ثانی نے رقم واقعی کاروبار میں لگائی ہے اور اس کو نفع ہوا ہے تو فریق ثانی اصل رقم کے ساتھ ساتھ طے شدہ شرح سے نفع کے دینے کا بھی پابند ہے اور اگر کاروبار میں رقم لگائی اور نفع ہوا اور نفع ہونے کے بعد نقصان ہوا اگر نقصان فریق ثانی کی کوتاہی کی وجہ سے ہوا تو نقصان کا ذمہ دار فریق ثانی اکیلا ہی ہوگا اور اگر فریق ثانی کی کوتاہی نہیں تھی تو نقصان میں فریق اول بھی شامل ہوگا لیکن پہلے نفع میں سے نقصان کو پورا کیا جائے گا اور اگر نفع میں نقصان پورا نہ ہوا ہو تو پھر اصل رقم سے نقصان کو پورا کیا جائے گا۔
فریق ثانی نے واقعتاً کیا کیا ہے؟ رقم ذاتی استعمال میں لگائی ہے یا کاروبار میں؟ کاروبار میں نفع ہوا ہے یا نقصان ؟ نقصان ہوا ہے تو فریق ثانی کی کوتاہی ہے یا نہیں؟ یہ تمام امور تجربہ کار تاجروں کی ایک کمیٹی دیکھ کر ہی طے کرسکتی ہے۔ لہذا ان اصولوں کی روشنی میں چند تجربہ کار تاجروں کو بٹھا کر ان سے فیصلہ کروا لیا جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved