• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کاروبار کے لیے دیے ہوئے پیسوں کی حفاظت میں کوتاہی کرنا

استفتاء

میں نے مجموعی طور پر ایک لاکھ روپیہ ایک صاحب کو دیا۔ جوکہ موبائل کے کارڈ کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کام میں آپ کو ہر ماہ 3000 سے 3500 روپے تک نفع ہوگا۔ میں نے اس سے اپنی رقم کے تحفظ کے بارے میں کچھ سوالات کیے، مثلاً  اگر رقم  چھن جائے تو کیا ہوگا ؟ اس نے کہا کہ میں گھر بیٹھ کر کام کرتا ہوں۔ اس میں تحفظ ہے۔ میں نے پوچھا کہ کارد کے  چھن جانے یا  ضائع ہو جانے کی صورت میں کیا ہوگا؟ اس نے کہا کہ کمپنی کو اطلاع دے کر نئے غیر جاری کروا لیں گے۔ غرض یہ کہ مطمئن ہونے پر میں نے اسے7/5/17  کو 80000 پھر اگلے ماہ مزید 20000 روپے دیئے۔ اورایک تحریر پر اس کے دستخط  لے لیے جو ساتھ بھیج رہا ہوں۔

اس نے مجھے پہلے مہینے  1400 روپے دوسرے مہینے 2800 روپے نفع کے دیے۔ تیسرے مہینے خاموشی رہی، چوتھے مہینے فون کیا تو جواب ملا آپ پریشان تو نہیں ہوں گے۔ پوچھا کیوں؟ اس نے بتایا کہ کارڈ خریدنے سے ایک دن پہلے ایڈوانس رقم دیتے ہیں اگلے دن کارڈ ملتے ہیں۔ جس ڈیلر سے کارڈ خریدتے ہیں اسے رقم 70 لاکھ دی تھی کارڈ صبح  ملنے تھے لیکن اس کے حصے دار نے اسے رات کو قتل کردیا اور مفرور ہوگیا ہے۔ لیکن  آپ فکر نہ کریں پیسے مل جائیں گے۔ اس کے بعد اس نےکبھی بھی مجھے کوئی فون نہیں کیا نہ کسی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ میرے اصرار کرنے پر پہلے اس نے 5000 فی مہینہ دینے کا کہا۔ لیکن نہ دیئے۔ پھر کہا کہ گولڈن شیک ہنیڈٹی۔ اینڈ۔ ٹی سے لے کر رقم دے دوں گا۔ لیکن گولڈن شیک ہنڈ لینے کی بھی اطلاع نہ دی۔ مجھے پتہ  چلتا تو پھر رقم کا مطالبہ کیا اس نےکہا کہ آپ کو رقم دینا نہیں بنتی آپ علماء سے پوچھیں۔ اگر لین ہے  تو تھوڑی تھوڑی کر کے دوں گا اور قیامت کے دن واپس لے لوں گا۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مجھے اس صورت حال میں مطالبہ کرنا چاہیے یا نہیں؟

قابل غور یہ ہے کہ اس صاحب نے جو شروع میں نفع کی شرع بتائی وہ نہ دی، دوسرا اس آدمی کے ساتھ جو واقعہ ہوا۔ اس نےہمیں کوئی خبر نہیں دی۔ بقول اس کے اس نے اپنے سات لاکھ ڈیلر کو  ایڈوانس دیئے تھے۔ جس میں میری رقم بھی تھی۔ پرچہ بھی کٹوایا پولیس نے مدد نہیں کی۔ لہذا اس نے کیس کی پیروی بھی چھوڑ دی ہے۔

پھر اس نے دوبار رقم کی واپسی کا وعدہ کیا لیکن پورا نہیں کیا۔ بلکہ اصرار کرنے پر لڑائی پر اتر آیا۔ اگر اس نے کارڈ کی خرید و فروخت کا کام کیا تو اسے اچھی پارٹی سے کرنا چاہیے تھا۔ بقول اس کے جس ڈیلر کو پیسے دیے وہ اجنبی تھا۔ کرائے کے گھر میں رہتاتھا۔ اس کا کوئی بیٹی، بیٹا نہ تھا اس کا حصے دار بد دیانت تھا اس کے قتل پر اس کے معاملات کا کوئی ذمہ دار نہیں۔ ایسے آدمی سے تحقیق کیے بغیر ایڈوانس رقم دینا ایک غیر ذمہ داری نہ تھی؟

دوسری بات میں نے کار بار اس شخص سے کیا نہ کہ قتل ہونے والے سے نفع میں وہ شریک ہے لیکن نقصان میں نہیں۔ براہ مہربانی شرعی نقطہ نظر سے میری راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح: آپ نے ان صاحب کو  یہ پیسے کس بنیاد پر دیئے تھے؟ قرض دیا تھا یا شرکت  و مضاربت کے طور پر دیئے تھے؟

جواب: میں نے پیسے ان کی کاروباری شراکت میں اچھےنفع جو کہ انہوں نے مجھے بتایا کی بنیاد پر دیئے تھے۔ اس پر نقصان کے متعلق بار بار سوالات ہوئے انہوں نے پیسوں کی حفاظت کے متعلق مطمئن کیا تھا۔ ہمارے تحریری معاہدے کے الفاظ یہ تھے:

” میں*** صاحب کو کاروباری شراکت کی بنیاد پر ایک لاکھ روپیہ دے رہا ہوں”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے پیسے اس آدمی ( *** صاحب) کے پاس امانت کی حیثیت سے تھے۔ اورا مانت کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ وہ اگر کسی کوتاہی کی وجہ سے ضائع ہوجائے تو اس کا ضمان اور تاوان آتا ہے۔

مذکورہ صورت میں اس آدمی کی کوتاہیاں یہ ہیں:

1۔ سات لاکھ کی رقم بلا ضمانت کے پکڑانا غیر دانشمندانہ اور کوتاہی کی بات ہے۔

2۔ قتل کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا۔

اس  وجہ سے وہ اس رقم کا ضامن ہوگا۔ چنانچہ آپ (*** ) اس سے مذکورہ رقم کا مطالبہ کر سکتےہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved