• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کاروبار کے سلسلے میں دوران سفر کھانے پینے اور کرایہ کا خرچہ

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور بکر دونوں پیسے ملا کر کاروبار کرتے ہیں جس میں زید کا سرمایہ بھی زیادہ ہے اور کام بھی زید ہی کرتا ہے، بکر کا صرف سرمایہ ہے کام وہ نہیں کرتا اور کاروبار سے جو منافع حاصل ہوتا ہے وہ دونوں کے درمیان فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہوتا ہے۔ لہذا زید کو کاروبار کی غرض سے کبھی اندرون شہر اور کبھی بیرون شہر جانا پڑتا ہے اور کھانے پینے کی ضرورت  بھی پیش آتی ہے، نیز جب کاروبار کے لیے جانا ہوتا ہے تو سفر کا کرایہ  خرچہ بھی ہوتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ دروان سفر جو خرچہ ہوتا ہے یہ خرچہ کس کے ذمہ ہے؟ آیا کہ زید اپنی جیب سے یہ خرچہ ادا کرے گا یا مالِ شرکت کے مجموعہ سے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید جب کاروبار کی غرض سے دوسرے شہر جائے گا تو کرایہ اور کھانے وغیرہ کا خرچہ مالِ شرکت کے مجموعہ سے لے گا اور اگر اس سفر میں نفع حاصل ہوا ہو تو خرچہ نفع سے لے گا اور اگر اندرون شہر ہی کام کے لیے گیا تو کھانے پینے کا خرچہ مالِ شرکت میں سے نہیں لے سکتا البتہ اگر بکر خود ہی اس کی اجازت دے دے تو لے سکتا ہے۔

في رد المحتار (6/ 487):

و مؤنة السفر و الكراء من رأس المال إن لم يربح. قال ابن عابدين رحمه الله تحت قوله (و مؤنة السفر إلخ) أي ما أنفقه على نفسه من كرائه و نفقته و طعامه و إدامه من جملة رأس المال في رواية الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله، قال محمد رحمه الله و هذا استحسان فإن ربح تحسب النفقة من الربح و إن لم يربح كانت من رأس المال.

و مثله في فتاوى قاضي خان على هامش الهندية (3/ 614).

و في الفتاوى الهندية (2/ 323):

فإذا سافر أحدهما بالمال و قد أذن له شريكه بالسفر أو قيل له اعمل برأيك أو عند إطلاق الشركة على الرواية الصحيحة عن أبي حنيفة و محمد رحمه الله تعالى فله أن ينفق من جملة المال على نفسه في كرائه و نفقته و طعامه و إدامه من رأس المال روى ذلك الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى قال محمد رحمه الله و هذا استحسان كذا في البدائع. فإن ربح تحسب النفقة من الربح و إن لم يربح كانت النفقة من رأس المال كذا في خزانة المفتين و لو خرج إلى موضع يمكنه أن يبيت بأهله لا تحسب من مال الشركة كذا في التهذيب.

و في شرح المجلة (المادة: 1381) (4/ 306):

إذا ذهب أحد الشريكين إلى ديار أخرى لأجل أمور الشركة يأخذ مصرفه من مال الشركة. يعني أن ما ينفقه على نفسه من كرائه و نفقته و طعامه و إدامه من جملة رأس المال في رواية الحسن عن أبي حنيفة، قال محمد رحمه الله و هذا استحسان فإن ربح تحسب النفقة من الربح و إن لم يربح كانت من رأس المال، رد المحتار عن الخانية، و ذكر في الهندية أنه لو خرج إلى موضع يمكنه أن يبيت في أهله لا تحسب من مال الشركة. أي إلا أن يأذن له الشريك الآخر كما هو ظاهر.

جواہر الفتاویٰ (3/ 398) میں ہے:

’’تجارت کے سلسلہ میں وہ سفر جس میں رات گھر نہ لوٹ سکے اس کا خرچہ تجارت میں سے جائے گا یعنی کھانا پینا اور کرایہ

وغیرہ تجارت سے نکالا جائے گا۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved