- فتوی نمبر: 18-48
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک صاحب نے چائنہ سے مال منگوانے کے لیے 60 لاکھ روپے دیئے ہم نے وہاں سے ساٹھ لاکھ کا مال خریدا راستے کے اخراجات تقریبا پچیس لاکھ روپے آئے مال پہنچنے کے بعد مال ان صاحب کے حوالے کر دیا گیا اور ان صاحب نے قبضہ کرنے کے بعد یہ مال ہمیں تین ماہ کے ادھار پر ایک کروڑ روپے میں فروخت کردیا ان کے علم میں ہے کہ مال پر اخراجات 25لاکھ ہوئے ہیں جو ان کے کہنے پر کیے گئے ہیں اور ان کو واضح کردیا گیا کہ یہ اخراجات آپ پر قرض ہو گئے ہم نے ان کے بل ایک کروڑ میں سے پچیس لاکھ منہا کرکے باقی رقم مقررہ مدت میں ادا کر دی۔(۱)کیایہ معاملہ درست ہے؟(۲)اور آئندہ بھی اسی طرح ہم اپنا معاملہ ان سے کر سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں دوعقد ہیں پہلاعقدوکالت کا ہے کہ ایک فریق دوسرے کا وکیل بن کر اس کے لئے چائنہ سے مال لائے گا اور اس مال لانے میں کچھ کمیشن نہ لے گا ،بلکہ راستے کے اخراجات جوکہ پچیس لاکھ روپے ہیں، اپنے موکل کی اجازت سے بطور قرض کےادا کرے گا۔
دوسرا عقدیہ ہے کہ موکل اس سامان پر قبضہ کرکے اسی وکیل کو ادھار فروخت کرےگا، اس صورت میں موکل اگر اپنے وکیل کو سامان فروخت نہ کرے یا کرے لیکن ادھار فروخت نہ کرے تو اغلب یہ ہے کہ وکیل اول تو وہ وکیل بن کر اپنے موکل کے لئے چائنہ سے سامان ہی نہ لائے اور اگر لائے تو اس پر اپنا کمیشن لے اور راستے کے اخراجات میں ایک بھاری رقم اپنے پاس سے نہ لگائے، اگرچہ قرض کے طور پر ہی کیوں نہ ہو جس سے معلوم ہوا کہ عقد وکالت اندرکھاتے گویا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مؤکل بعد میں یہ سامان وکیل کو ادھار فروخت کرے۔ اس طرح معاملہ کرنے کو شریعت میں صفقہ فی صفقہ کہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے، لہذا اگر فریقین آپس میں اس بات کو واضح کر دیں کہ وکیل موکل کو اس پر مجبور نہ کرے گا کہ وہ یہ سامان اسی وکیل کو فروخت کرے۔ اگر موکل نے یہ سامان کسی اور کو فروخت کردیا تو وکیل کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا، یہ صورت جائز ہوسکتی ہے ،اس طرح اس معاملے کو خواہ ایک مرتبہ کریں یا بار بار کریں۔
(الدرمع الشامی۴ /۲۸۳)
ولا بیع بشرط لایقتضه العقد ولایلائمه…. کشرط ان یقطعه البائع…او یستخدمه مثال لما فيه نفع للبائع
قوله: مثال لما فيه نفع للبائع ومنه ما لو شرط البائع ان یهبه المشتری شیئا اويقرضه…
امدادالفتاوی3/39)ميں ہے:
الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں، ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں، اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردے تو زید کو مجبور کرنیکا کوئی حق نہیں، پس اگر عرف وعادت میں عمرو کو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ورنہ حلال
امدادالفتاوی (3/41)
الجواب: یہاں دو بیعیں علی سبیل التعاقب ہیں، ایک وہ کہ زید نے عمرو سے مال خریدا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر زید عمرو کو بیع وشراء پر بنا وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved