- فتوی نمبر: 21-391
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
گزارش ہے کہ کاروباری تقسیم کے حوالے سے معاملہ درپیش ہے اس کے بارے میں شریعت کےاعتبار سے رہنمائی درکار ہے۔
کچھ ابتدائی تفصیل:
ہمارے دادا جی کے پانچ بیٹے تھے جمال الدین ،لال خان،کمال خان،شیرخان،دلیر خان،۔1980سے پہلے سارے بھائی مختلف جگہوں پر ملازمت کرتے تھے۔1980میں شیرخان نے اپنے ایک دوست سے مل کر گڈزٹرانسپورٹ ایجنسی بنائی ۔شیرخان نے اپنا دفتر پنڈی میں بنایا اوراس کے دوست نے لاہور میں کام شروع کیا ،ایک سال بعد شیر خان نے بھائی کمال خان کو اپنے ساتھ پنڈی میں اوردلیر خان کو اپنے دوست کےپاس لاہور میں کام پرلگایا۔بھائی جمال خان سعودی عرب میں ملازمت کےلیے چلے گئے اورلال خان اپنی ملازمت کرتا رہا اوربھائیوں سے علیحدہ ہی رہا ۔بھائی جمال خان نے بھی سعودی نوکری کے دوران بھائیوں سے تعاون کیا کاروبار آہستہ آہستہ ترقی کرنے لگا گھریلو اخراجات بھی چاروں بھائیوں کے مشترکہ چلتے رہے۔1987میں شیر خان نے کراچی میں دفتر قائم کیا اورچھوٹے بھائی دلیرخان کو لاہو ر سے ہٹاکر کراچی بھیج دیا ۔1993تک سے یہ سلسلہ چلتارہا ۔1988میں جمال خان سعودی عرب سے واپس آیا تو وہ پنڈی دفترمیں بھائی کےساتھ کام میں لگ گیا ۔1993میں شیرخان کے دوست نے پارٹنرشب (مشترکہ کاروبار) سے علیحدگی کامطالبہ کیا اورتین ماہ میں دونوں الگ ہوگئے
سوالات سے متعلق معلومات:
پھر شیرخان نے لاہور میں بھی دفترقائم کیا اورشیر خان کے کہنے پر ایک سٹامپ لکھا گیا کہ جمال خان، کمال خان، دلیر خان ،اورایک دوست ولایت خان لاہور میں جوبھی کام ہوگا اسمیں یہ نفع ونقصان میں (25،25 فیصد کے حساب سے ) شریک ہوں گے ۔ شیر خان نے اپنا حصہ اس میں نہیں رکھا ۔ایک اسٹامپ اورتحریر ہوا کہ شیرخان اوردلیرخان پنڈی اورکراچی سیٹ اپ میں بھی برابر شریک ہوں گے ۔1993میں بھائیوں کے بیٹے بھی کاروبار میں آناشروع ہوگئے ۔2000میں لاہور آفس میں حساب ہوا شیرخان چیف ایگزیکٹوتھے انہوں نے حکم دیا کہ لاہور میں نفع پانچ حصوں میں تقسیم ہوگا یعنی چار حصے پارٹنر کے اور پانچواں حصہ ان کا خود کا ، اورنفع اسی طرح تقسیم ہوا۔
2001میں شیرخان نے اسلام آباد میں دفتربنایا اورکسی کو شامل نہیں کیا ۔2007میں ایک بھائی کمال خان فوت ہوگئے ۔2009میں دوسرے بھائی جمال خان بھی فوت ہوگئے ۔2011میں دلیرخان بھی فوت ہوگئے2014میں ولایت خان نے علیحدگی کامطالبہ کیا اوراپنا نفع اورانویسمنٹ وصو ل کی ،اس کے علاوہ اس نے دومطالبے کیے کہ اسٹامپ کےلحاظ سے مجھے پانچ فیصد نفع کم ملاہے (یعنی 20 فیصد ملا ہے 25 فیصد کی بجائے )وہ ادا کریں اورچلتا کاروبار آپ لوگ سنبھال رہے ہیں مجھے میرے حصہ کی قیمت اداکریں ۔شیرخان نے پانچ فیصد کی بجائے تین فیصد نفع کی رقم پندرہ لاکھ اداکی اورحصہ کی کوئی قیمت نہ ادا کی ۔ولایت خان نے بھی اسی لائن میں اپنا کاروبار اورلوگوں کےساتھ ملکر شروع کردیا ۔2014سے 2019تک لاہور میں چارحصوں میں نفع نقصان کی شراکت چلتی رہی راولپنڈی اوراسلام آباد کاکاروبار شیرخان کے بیٹوں نے سنبھال لیا کراچی میں دلیر خان کے بیٹے کام کرتے رہے اورنفع میں دلیر خان اور شیرخان برابر کے شریک رہے ۔2019میں کمال خان کے بیٹوں کو علیحدگی کےلیے کہا گیا تین ماہ میں حساب کیا گیا کمال خان کے بیٹوں نے بھی نفع اورانویسمنٹ وصول کرلی حساب کتاب میں ان کےذمہ 30لاکھ کا قرض ہوا اس کےبدلے ان کے یہ مطالبے ہیں (1)پانچ فیصد جو اس میں نفع کم ملا وہ ادا کیا جائے (2)چلتے کاروبار سے ہمیں نکالا گیا ہمارے حصہ کی قیمت 40لاکھ ہے وہ بھی ادا کی جائے معاملہ ابھی مذاکرات میں ہے ۔
سوال (1)اسٹامپ میں چار حصہ دار ہیں جبکہ نفع پانچ حصوں میں تقسیم ہوا کیا یہ جائز ہے ؟جبکہ بعد میں شرکاء نے مطالبہ بھی کیا ہے کہ ہمیں نفع 5 فیصد کم دیا گیا ہے
سوال نمبر (2)کیا کمال خان کے بیٹوں کے یہ مطالبات جائز ہیں جبکہ مشترکہ سیٹ ایپ سے نکلنے کےبعد انہوں نے بھی اسی لائن میں کراچی اورلاہور میں اپنا سیٹ ایپ شروع کرلیا ہے ۔
سوال نمبر (3)شراکت میں کراچی سے لاہور آنے والی گاڑی کی کمیشن لاہور دفتر والوں کو 6فیصد ملتی رہی ہے(جیسا کہ آپس میں طے تھا) 2014 سے 2019 تک کمیشن کراچی دفتروالوں نے اپنی مرضی سے کم کرکے 2یا 3فیصد کےحساب سے ادا کی ،اس طرح لاہور کے پارٹنرز کونفع کم ملا۔اس کا مطالبہ لاہور دفتر کے پارٹنرز کریں تو کیا یہ جائز ہے ؟
سوال نمبر 4۔اسٹامپ کی روشنی میں دلیرخان کے وارثین کو پنڈی کاروبار میں سے کچھ نہیں دیا گیا ان کا حصے کا مطالبہ جائز ہے کہ نہیں ؟
سائل:محمدفاضل خان بن کمال خان
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) مذکورہ صورت میں چونکہ شیر خان نےخود اس کاروبار کو اسٹامپ پیپر پر چار بندوں کے نام کردیا تھا اس لیے یہ کاروبار شیر خان کی طرف سے ان کو ہدیہ شمار ہوگا اور اس کے نفع کے بھی وہی چاروں حقدار ہوں گے البتہ شیر خان چونکہ خود بھی اس کاروبار کو عملا سنبھالتا رہا تھا اس لیے اس کو مارکیٹ ریٹ کے لحاظ سے اتنے سالوں کی تنخواہ ملے گی ۔یہ تو اصولی بات ہے باقی شیر خان کے بھائیوں کو احساس کرنا چاہیئے کہ شیر خان نے انہیں سب کچھ کر کے دیا ہےتو وہ بھی اس کا خیال کریں ۔
2) پہلے مطالبہ سے متعلق تو تفصیل نمبر 1 میں گذر چکی ہے اور دوسرا مطالبہ درست ہے ان کے حصے کی جتنی قیمت بنتی ہے وہ لے سکتے ہیں ۔
3) کراچی والوں نے اگرچہ اپنی مرضی سے کمیشن تبدیل کی تھی لیکن لاہور والوں نے اس پر ان سے کام ختم نہیں کیا بلکہ ان سے کام کرتے رہے اس لیے یہ ان کی رضامندی ہی سمجھی جائے گی اور اب وہ کراچی والوں سے مطالبہ نہیں کر سکتے۔
4) اسٹامپ پیپر پر شیر خان کی مرضی سے کاروبار آدھا دلیر خان کے نام کر دیا گیا تھا اس لیے اس کے ورثاء کو اس میں سے حصہ ملے گا۔
نوٹ: یہ جواب ایک فریق کے بیان کی بنیاد پر دیا گیا ہے اگر دوسرے فریق کا بیان اس سے مختلف ہو گا تو یہ جواب کالعدم ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved