- فتوی نمبر: 14-209
- تاریخ: 08 ستمبر 2019
- عنوانات: عبادات > طہارت > وضوء کا بیان
استفتاء
آج کل بازار میں ایسی کون مہندی (ہاتھوں پر لگانے والی) مل رہی ہے جس میں کیمیکل ملا ئے جاتے ہیں ۔مہندی کا رنگ صرف 10 منٹ ہی میں بہت زیادہ تیز ہوجاتا ہے ،ایسی کون مہندی ایمرجنسی کون مہندی کہلاتی ہے، اس مہندی کا رنگ اسی طرح سے ہوتا ہے جیسا کہ ناخنوں پر لگانے والے عرق کا ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایسی ایمرجنسی مہندی لگانے سے رنگ تو بہت تیز اور بہت ہی کم وقت میں آتا ہے مگر جب یہ مہندی اترتی ہے تو عام مہندی کی طرح آہستہ آہستہ رنگ ہلکا ہو کر نہیں اترتی بلکہ ایمرجنسی مہندی پر ت (تہہ)بن کراترتی ہے، جیسے کہ ٹھپے والے ٹھپہ لگاتے تھے تو وہ بھی ہاتھ سےتہہ بن کر اترتا تھا۔
سوال :کیا ایمرجنسی مہندی لگانے سے جو پر ت (تہہ)وا لا رنگ ہاتھ پر لگا رہتا ہے تو ایسی برتھ والی مہندی لگانے سے وضو اور غسل ہو جاتا ہے؟؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسی مہندی لگا کر جلدی سے ہی ہاتھ دھو لیے جائیں تو وضو ہو جائے گا۔ برائے کرم اس جدید مسئلے پر مکمل تحقیق کرکے راہنمائی فرمادیں اور ایسی مہندی کے نعم البدل سے جلد آگاہ کیجئے۔ وضاحت مطلوب ہے :
آپ کے ذہن میں اگر کوئی خاص برانڈ ہے تو وہ ذکر کر دیں تا کہ ہمارے لئے تجربہ کرنا آسان اور مفید ہو
جواب وضاحت :
برانڈ کا نام ’’بھابھی دلہن ڈارک مہرون کون مہندی‘‘ ہے۔ حضرت آج کل سب مہندیاں اس طرح کی ہیں کہ ان کا رنگ چھلکے کی طرح اترتاہےتو کیا اس طرح کی مہندی لگی ہوئی ہو تو وضو اور نماز ہوجاتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر ہاتھوں پر مہندی کا رنگ لگا ہو تو وضو اور غسل ہو جاتا ہے کیونکہ اس رنگ کی اس طرح تہہ نہیں جمتی جس سے پانی کھال تک نہ پہنچتا ہو بلکہ پانی باآسانی کھال تک پہنچ جاتا ہے ۔اگر کسی نے تجربہ کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کاغذ پر مہندی لگائی جائے جب وہ سوکھ جائے تو اس کو کھرچ کر صاف کردیں ،پھر اس کاغذ پر چند قطرے پانی ٹپکائیں اگر پانی کا غذ کی دوسری طرف بھی سرایت کرجائے تو پھر اس مہندی کی تہہ نہیں جمتی بلکہ وہ مہندی کا رنگ ہے اور اگر پانی سرایت نہ کرے تو وہ مہندی تہہ جمنے والی ہو گی اور اس مہندی کو ہاتھوں وغیرہ میں استعمال کرنے کی صورت میں وضو اور غسل نہ ہو گا۔
نوٹ : ہمارے دا رالافتاء کےبعض ساتھیوں نے اس قسم کا تجربہ کیا ہے۔ ہمارے تجربہ میں مذکورہ مہندی کی کوئی ایسی تہہ نہیں جمتی جوجلد تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔
الدر المختار (1/ 154)
( ولا يمنع ) الطهارة ( ونيم ) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته
( وحناء) ولو جرمه به يفتى
حاشية ابن عابدين (1/ 154)
قوله ( به يفتى ) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة
قال في شرحها ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن ا هـ
فی الهندیة4/1
فی فتاوی ماوراء النهران بقی من موضع الوضوء قدر رأس ابرة او لزق بأمل ظفره طین یابس او رطب لم یجز وان تلطخ یده بخمیر اوحناء جاز
© Copyright 2024, All Rights Reserved