• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کزن سے شادی کرنا

استفتاء

اسلام میں کزن سے شادی کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کزنز کی شادی ہوئی تو اولاد میں کوئی نہ کوئی معذوری پائی جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کزن یعنی پھوپھی زاد، چچازاد، ماموں زاد، اور خالہ زادبہن سے نکاح کرنے کوشریعت نے حلال رکھا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نعمت ہے کہ حلت کے دائرہ کو وسیع کیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

یَا اَيها النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهن وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا اَفَائَ اللهُ عَلَیْکَ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خَالٰتِکَ.(سورہ احزاب: 50)

ترجمہ: اے نبی! ہم نے حلال کیں آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں جن کے مہر آپ دے چکے اور آپ کی وہ باندیاں جو اللہ نے آپ کے ہاتھ لگا دیں اور آپ کی چچا زاد بہنیں اور آپ کی پھوپھی زاد بہنیں اور آپ کی ماموں زاد بہنیں اور آپ کی خالہ زاد بہنیں۔

خود رسول اللہ کا اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ہے:

فَلَمّٰا قَضٰی زَیْدٌ مِنها وَطَرًا زَوَّجْنٰكها(سورہ احزاب: 37)

ترجمہ: پھر جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کرلیا تو ہم نے اس سے تمہارا نکاح کرادیا۔

جس کی تفصیل یہ ہے کہ: رسول اللہ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہؓ سے کر دیا تھا۔ ان دونوں کی آپس میں نہ بن سکی۔ مجبور ہو کر زیدؓ نے ان کو طلاق دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب زیدؓ نے ان سے اپنی غرض پوری کر لی یعنی طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی اور ان کو زینب رضی اللہ عنہا سے کچھ غرض نہ رہی تو اے نبی ہم نے زینب کو آپ کے نکاح میں کر دیا۔

قرآن پاک کی آیت اور رسول اللہ ﷺ کے عمل سے معلوم ہوا کہ کزن کے ساتھ نکاح حلال ہے لیکن حلال ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے ضرور ہی نکاح کیا جائے بلکہ جب جو عورتیں حلال ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کر لو۔ کیونکہ حلت کا دائرہ صرف انہی تک محدود نہیں ہے بلکہ وسیع ہے۔  جیسا کہ سورہ نساء میں ہے:

فانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ(سورہ نساء: 03)

ترجمہ: عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں۔

مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہے کہ بعض موروثی بیماریاں اورخلقی نقائص مذکورہ رشتوں میں نکاح کرنے سے ہونے والی اولاد میں نسبتا زیادہ پائے جا تے ہیں تاہم اعداد و شمار کے مطابق ایسے نکاحوں  کی بڑی اکثریت مذکورہ نقصان و ضرر سے خالی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ رشتہ بھی دیگر حلال چیزوں کی طرح ہوا کہ بہت سے لوگوں کے لئے وہ مفید ہوتی ہیں لیکن بعض لوگوں کو ان سے نقصان ہوتا ہے۔ تو جن کو نقصان ہوتا ہے وہ ان سے پرہیز کرتے ہیں ۔ اسی طرح ان مذکورہ رشتوں سے ہر نکاح میں نقصان نہیں ہوتا ، لہٰذا چند ایک واقعات کی بنا پر حلال کو حرام نہیں سمجھا جائے گا۔البتہ کسی خاندان میں مشاہدہ سے مذکورہ ضرر کا علم ہوجائے تو اگر ہونے والی اولاد میں بیماری و ضرر ہونے کا غالب گمان ہو یا یقین ہو تو پھر ایسے رشتہ سے شرعا حلال سمجھنے کے باوجود پرہیز کا مشورہ دیا جائے  گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved