- فتوی نمبر: 9-50
- تاریخ: 16 مئی 2016
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
ایک شخص کا کارخانہ ہے جس میں وہ پلاسٹک کے برتن، کھلونے اور کرسیاں بناتا ہے۔ اور خام مال وہ مارکیٹ سے خریدتا ہے پھر برتن، کھلونے بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ میں تمہیں ایڈوانس چار لاکھ روپے دیتا ہوں تم میرے لیے اس رقم سے خام مال خرید کر برتن اور کھلونے وغیرہ تیار کرو۔ البتہ جب تم مال تیار کر لو تو مارکیٹ میں میرا (نمائندہ) بن کر آگے فروخت بھی تم نے ہی کرنا ہے اور جتنے میں بکے اس کا 20 فیصد نفع تمہارا اور 80 فیصد میرا ہو گا۔ کیا شریعت کی رو سے کاروبار کی یہ صورت جائز ہے؟َ
واضح رہے کہ جس شخص کا کارخانہ ہے اس سے دوسرے لوگ بھی آرڈر پر مال بنواتے ہیں۔ اور رقم دینے والا شخص اس کے ساتھ یہ معاملہ ایک دفعہ کے لیے ہی کر رہا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کاروبار کی مذکورہ صورت جائز ہے۔ بشرطیکہ فروخت ہونے والے ہر ہر پیس کا حساب کتاب لازمی رکھا جائے۔ اسی طرح خام مال کی خریداری و لاگت کا بھی مکمل حساب کتاب علیحدہ رکھا جائے۔
توجیہ: مذکورہ معاملہ بظاہر استصناع (آرڈر پر چیز تیار کروانے) کا معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت مضاربت کی ہے اور مضاربت کی شرائط بھی پائی جا رہی ہیں۔
في الهندية (4/334):
لو دفع إليه ألف درهم مضاربة على أن يشتري به الثياب و يقطعها بيده و يخيطها على أن ما رزق الله تعالى في ذلك من شيء فهو بينهما نصفان فهو جائز على ما اشترطا لأن العمل المشروط عليه مما يصنعه التجار على قصد تحصيل الربح و كذلك لو قال له على أن يشتري به الجلود و الأدم و يخرزها خفافاً و دلاء و رداء بيده و أجزائه فكل هذا من صنع التجار فيجوز شرطه على المضارب.
و في التنوير (8/ 497):
هي (المضاربة: از ناقل) عقد شركة في الربح بمال من جانب و عمل من جانب … و توكيل مع العمل و شركة إن ربح و غصب إن خالف و إجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح للمضارب حينئذ بل له أجر مثل عمله مطلقاً ربح أو لا.
و فيه (8/ 500) أيضاً:
و شرطها كون رأس المال من الأثمان و كون رأس المال عيناً لا ديناً و كونه مسلماً إلى المضارب
… و كون الربح بينهما شائعاً و كون نصيب كل منهما معلوماً عند العقد…. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved