- فتوی نمبر: 17-64
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میری کھاد کی دکان ہے میرے پاس منڈی کے آڑھتی کھاد لینے آتے ہیں جن کو میں ادھار کھاد دیتا ہوں ریٹ لگانے کی ترتیب یہ ہوتی ہے آڑھتی آج کی تاریخ میں مجھ سے کھاد لے جاتے ہیں اور میں رات کو ریٹ لگا کر پرچیاں ان کو بھجوا دیتا ہوں رات کا ریٹ بدل جاتا ہے میں رات کا ہی ریٹ لگاتا ہوں پوچھنا یہ ہے کہ میرا یہ کام شریعت کی رو سے جائز ہے؟
نوٹ: ریٹ میں دس پندرہ روپے کی تبدیلی آتی رہتی ہے ریٹ چاہے کم ہو یا زیادہ ہو رات کا ہی ریٹ لگتا ہے مارکیٹ کا طریقہ کار یہی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ عقد کے وقت ثمن(کھادکی بوری کی قیمت)مجہول(نامعلوم)ہوتی ہے کیونکہ رات کو کیا ریٹ ہوگااس کاعلم عقد(سوداکرنے)کےوقت نہیں ہوتا لیکن یہ جہالت ایسی نہیں جو مفضی الی النزاع(کسی جھگڑےکاباعث)ہو کیونکہ رات کا ریٹ جو بھی ہوگاوہ سب لوگوں کےلیےیکساں ہوگا ،لہذامذکورہ طریقہ سے خرید وفروخت کرنا جائز ہے
بدائع الصنائع (۳۵۵/٤)
ومنها أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك فيحصل المقصود.
فقه البيوع (٤۳۰/۱)
وهناك اشياء تتغير قيمتها كل يوم بل كل ساعة في بعض الاحوال مثل الذهب والفضة واسهم الشركات ولكنها منضبطة لا تتغير بتغير التجار وقيمتها مسجلة حسب الاوقات فلو بيعت هذه الاشياء بسعر السوق فلا بد من ذكر وقت التقييم عند العقد.(وفي الصورة المذکورة وان لم يذکروقت التقسيم عندالعقدصراحتالکنه مذکور عرفا..ازمحمدرفيق)
© Copyright 2024, All Rights Reserved