• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کھاد میں بیع قبل القبض کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں.کہ  ہمارے ہاں ستمبر میں لوگ کھاد لے کر کھاد والے کے پاس ہی رکھ دیتے ہیں اور پیسے نقد دے دیتے ہیں، جب قیمت بڑھ جاتی ہے تو اسے ہی(یعنی جس سے کھادخریدی تھی)کھاد کی موجودہ قیمت پر دے دیتے ہیں(یعنی بیچ دیتے ہیں)۔ نفع نقصان کا مالک خریدار ہی ہوتا ہے مثلااگر وہ کھاد کے گٹو کسی وجہ سے ضائع ہو گئے تو خریدنے والے کے ضائع ہوں گے بیچنے والے کے نہیں کیا یہ خریدوفروخت جائز ہے یا نہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے دکاندار خریدار کی کھاد متعین کرکے علیحدہ رکھتا ہے یا صرف زبانی سودا ہوتا ہے۔

جواب وضاحت:نہ کھاد متعین ہوتی ہے اور نہ ہی علیحدہ،مگر ضائع ہونے کی صورت میں وہ خریدار کا مال ہی شمار ہو گا بیچنےوالے کا نہیں۔

نوٹ :کھادوالے کی ملکیت میں اتنی کھاد بلکہ سے زیادہ  ہی ہوتی ہے۔(بشیرحسن)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خریدوفروخت کا مذکورہ طریقہ جائز نہیں جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

1.مذکورہ صورت میں اگر دکاندار خریدار کو اس پر مجبور کرے (جو کہ دکاندار کا حق ہے) کہ اپنی کھاد اٹھا لو، میں اسے اتنے عرصے تک اپنے گودام میں رکھنے کے لیے تیار نہیں، تو خریدار اس کو برا محسوس کرے گا۔ اسی طرح اگر دکاندار یہ کھاد واپس نہ خریدے پھر بھی خریدار اس کو برا محسوس کرے گا جس سےمعلوم ہوا کہ یہ خریداری اس سمجھوتے کہ ساتھ ہے کہ کھاد خریدنے کے بعددکاندار اسے اپنے گودام ہی میں رکھے گا اور قیمت بڑھنے پر اسے واپس بھی خریدے گا، اس طرح کے سمجھوتے سے خریدوفروخت ناجائز اور فاسد ہوجاتی ہے۔

2۔اس طرح کی تجارت میں اصل مقصود کسی چیز کا لینادینانہیں ہوتا بلکہ اصل مقصود اس چیز کے ریٹ کے اتار چڑھاؤ سے نفع کمانا ہوتا ہے جوکہ سٹہ کی روح ہے۔

3.مذکورہ صورت میں خریدار قبضے سے پہلے ہی بیچنے والے دکاندارکو یہ کھادبیچ دیتا ہے جو کہ شرعاً ممنوع ہے ۔

  1. مذکورہ صورت میں مبیع (بیچی جانے والی چیز)پر خریدار کے قبضے سے پہلے ضائع ہونے کی صورت میں خریدار کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی جائز نہیں ہے ۔

کیونکہ قبضہ سے پہلے سامان ضائع ہونے کی صورت میں بیچنے والے کا ہی نقصان ہوتا ہےنہ کہ خریدارکا۔مذکورہ صورت میں چونکہ مبیع کو غیرمبیع سے جدا نہیں کیا جاتااس لیے حکمی قبضہ بھی نہیں پایا گیا۔

(الدر المختار 384/7)

لا یصح اتفاقا ۔۔۔بیع منقول قبل قبضه ولو من بائعه

البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (12/ 250)

وفي القنيةولو باعه كرا من حنطة فإن لم يكن في ملكه فالبيع باطل، وإن كان في ملكه البعض بطل في المعدوم وفسد في الموجود، وإن كان في ملكه، فإن كانت في موضعين أومن نوعين مختلفين لايجوزالبيع وإن كانت من نوع واحدفي موضع واحد إلاأنه لم يضف البيع إلى تلك الحنطة لكن قال بعت منك كرامن حنطةجاز البيع،

حاشية ابن عابدين (4/ 530)

ومنها لو قال بعتك كرا من الحنطة فإن لم يكن كل الكر في ملكه بطل ولو بعضه في ملكه بطل في المعدوم وفسد في الموجود ولو كله في ملكه لكن في موضعين أو من نوعين مختلفين لا يجوز ولو من نوع واحد في موضع واحد جاز وإن لم يضف البيع إلى تلك الحنطة

بدائع الصنائع (5/ 158)

ولو قال بعتك قفيزا من هذه الصبرة صح وإن كان قفيزا من صبرة مجهولا لكن هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة لأن الصبرة الواحدة متماثلة القفزان بخلاف الشاة من القطيع وثوب من الأربعة لأن بين شاة وشاة تفاوتا فاحشا وكذا بين ثوب وثوب والله سبحانه وتعالى أعلم

تحفة الفقهاء (2/ 46)

فأما الجهالة التي لا تفضي إلى المنازعة فلا تمنع الجواز فإنه إذا باع قفيزا من صبرة معينة بدراهم أو باع هذا العدل من الثياب بكذا ولا يعرف عددها أو باع هذه الصبرة بكذا ولا يعلم عدد القفزان جاز لما ذكرنا

المبیع اذا هلک فی ید البائع قبل ان یقبضه المشتری یکون من مال البائع ولا شیء علی المشتری (مجلة،مادہ: 293)

امدادالفتاوی(39،40/3)میں ہے:

الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردے تو زید کو مجبور کرنیکا کوئی حق نہیں پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے۔۔۔۔۔۔

الجواب:یہاں دو بیعیں علی سبیل التعاقب ہیں ایک وہ کہ زید نے عمرو سے مال خریدا اس کاحکم یہ ہے کہ اگر زید کو اور عمرو کو بیع وشراء پر بنا بر وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved