• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خالی اسٹام پیپر پر زبردستی دستخط

استفتاء

میں موہنی روڈ رہتا ہوں۔ میری ملاقات کرن نام کی لڑکی سے ہوئی۔ میں دل ہی دل میں اسے پسند کرنے لگا۔ میں نے کئی دفعہ اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ ہوسکی۔ کچھ دن بعد اللہ کی طرف سے دوست کی دکان پر آئی اور مجھ سے 50 کا لوڈ کروایا۔ وہ بیلنس کروا کر چلی گئی۔ جس نمبر پر اس نے بیلنس کروایا تھا وہ اس کا اپنا نمبر تھا۔ میں نے بہت ہمت کر کے اسے میسج کیا۔ اور مجھے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں کوشش پر کوشش کرتا رہا۔ ایک دن میں نے اسے فون کیا کہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے فون پر بہت برا بھلا کہا۔ لیکن میں نے اس کی بات کا برا نہیں مانا۔ میں نے اس کے بعد پھر فون کیا پھر اس نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں بیوہ ہوں۔ میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی۔ اور آپ کے گھر والے مجھے قبول نہیں کریں گے۔ اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہوں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے گھر کے سامنے رہتا ہوں۔ اور ایسے ہی ہمارا رابطہ فون پر شروع ہو گیا۔ اور آہستہ آہستہ بات شادی تک پہنچ گئی۔ کرن نے بولا کہ اپنے گھر والوں کو مناؤ پھر میں اپنے گھر والوں سے بات کروں گی۔ کرن نے اپنے گھر والوں سے بات کی۔ لیکن وہ نہیں مانے۔ پھر میں نے اپنے گھر والوں سے بات کی اور وہ بھی نہیں مانے۔ بڑی کوشش کے باوجود دونوں گھر والوں سے کوئی نہیں مانا۔ اور مجھ سے گھر والوں نے برا سلوک شروع کیا۔ پھر میں نے کرن سے کہا کہ ہم دونوں کورٹ میں جاکر شادی کرتے ہیں۔ پھر کرن نے مجھ سے کہا کہ جیسا آپ کہتے ہو میں ویسا ہی کرلیتی ہوں۔ پھر ہم نے جاکر شادی کرلی۔ اور تین ماہ تک میرے گھر والوں کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں نے شادی کر لی۔ 2011 2-10 اس تاریخ کو ہماری شادی ہوئی۔ اور شادی کے چار دن بعد میں کرن کے والد صاحب کے پاس گیا۔ اور انہوں نے ہم دونوں کو بہت ذلیل کیا۔ پھر کرن کے ابو نے کہا میں تمہارے گھر والوں سے بات کرتا ہوں۔ اور میں نے ان سے کہا کہ میں ان سے خود ہی بات کرلوں گا۔ پھر کرن کے ابو نے کہا کہ جلد سے جلد بات کر کے مجھے اپنے ابو سے ملاؤ اور میں اپنے گھر والوں سے بات کرنے سے ڈرتا رہا۔ اور روزانہ میرے آگے یہ سوال ہوتا ۔ کرن کے ابو نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ اس کا بازو پکڑو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ میں سمجھو گا کہ میرے لیے یہ مر گئی۔ یہ مجھے اب بہت بری لگتی ہے۔ آپ لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ تم دونوں جو قدم اٹھایا ہے اس کے لیے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ اور پھر میں نے کرن کے ابو کے پاؤں پکڑ لیے کہ مجھے تھوڑے دنوں کا وقت دو میں اپنی جگہ سے لے کر اسے یہاں سے لے جاؤں گا۔ اور پھر بہت کوشش کے بعد ان کو منا لیا۔ اور پھر میرا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ اور اسی طرح دو ماہ گذر گئے۔ اور میرے گھر والوں کو ابھی تک پتہ نہیں تھا کہ میں نے شادی کرلی ہے۔ کرن کے گھر کےسامنے ہماری کھڑکی تھی۔ اور انہوں نے مجھے کے گھر جاتے دیکھا۔ اور انہوں نے پوچھا تم ادھر کیا لینے گئے تھے۔ اور میں نے بہانا لگا دیا کہ میں ان کے گھر کا سامان لینے گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا تم ان کے ملازم ہو کہ تم ان کا سامان لینے جاتے ہو۔ میں نے کہا ان کے گھر کوئی بچہ نہیں تھا۔ اس کے بعد اسی طرح مجھے کئی دفعہ کرن کے گھر جاتے ہوئے دیکھا۔ میرے دوست کو میری شادی کا علم تھا۔ بس یہ  بات وہیں سے شروع ہوئی۔ شادی والی بات میرے گھر پہنچ گئی۔ جب پتہ چلا تو وہ دن میرے لیے بہت بڑا تھا۔ اور میرے گھر والوں نے مجھے دباؤ دینا شروع کردیا کہ تم اسے چھوڑ دو اور میرا بھائی مجھے دھمکیاں دینے لگا کہ تجھے جان سے مار دوں گا۔ اور مجھے ابو نے بھی یہی دھمکی دی کہ میں بھی تجھے مار دوں گا اگر تم نے اس لڑکی کو نہ چھوڑا تو۔ اور میرے سب رشتے دار میرے دشمن بن گئے۔ اور میں اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے گھر سے نکل گیا۔ میں نے کرن سے بات کی کہ میں اپنی جان بچا کر نکلا ہوں اور بھائی اور ابو نے مل کر مجھے مارا ہے۔ میں نے کرن کو کہا کہ اپنے ابو سے بات کرو اور مجھے اپنے گھر رکھ لو۔ جیسا کہ کرن موہنی روڈ کا گھر چھوڑ چکے تھے۔ اور کرن کے ابو سے بات کرنے کے بعد وہ مان گئے۔ اور میرے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں پتہ تھا کہ میں کہاں رہ رہا ہوں۔ اور اسی طرح ہماری شادی کو چھ ماہ گذر گئے۔ میں پٹرول پمپ پر کام کرتا تھا۔ اور ایک دن میرا بھائی اسی پٹرول پمپ پر پٹرول بڑھوانے آگیا۔ اور مجھے بہت گالیاں نکالی۔ اور مجھے کہا کہ تو جو مرضی کرلے میں تجھے اس سے طلاق دلوا کر رہوں گا۔ پھر وہاں سے چلا گیا۔ میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ اور وہ ابو کو لے کر پمپ پر آگیا۔ اور مجھے وہاں سے زبردستی لے گئے۔ اور گھر جاتے ہی مجھے پھر مارنا شروع کیا۔ اور مجھے بار بار یہی کہتے رہے تم اسے چھوڑ دو۔ جب یہ مجھے لے کر گئے تو میری بیوی کو نہیں پتہ تھا۔ اور رات دیر تک میں گھر نہیں پہنچا اور وہ پریشان ہوکر اپنے بھائی کے ساتھ پٹرول پمپ پر گئی جہاں میں کام کرتا تھا۔ اور پوچھنے کے بعد پٹرول پمپ کے مینجر نے بتایا کہ اس کے گھر والے آئے تھے اس کے گھر والے اسے مارتے ہوئے لے گئے ہیں۔ اس کے بعد کرن میرے گھر آئی میرا پوچھنے کے لیے اور گھر والوں نے کرن سے جھوٹ بول دیا کہ وہ تمہارے پاس ہے۔ یہاں تو نہیں آیا۔ اور وہ فون بھی کرتی تھی۔ اور میرا فون بھی گھر والوں نے چھین لیا تھا۔ اور اس کے تین دن بعد انہوں نے یہی کہا کہ اسے چھوڑ دو اور مجھے مارنا شروع کردیا۔ اسی دوران میری امی کو اٹیک ہوگیا۔ اور اسی وقت میں امی کو لے کر ہسپتال چلا گیا۔ میرے پیچھے سب گھر والے بھی ہسپتال آگئے۔ اور اسی دوران انہوں نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ کی والدہ کا بچنا بہت مشکل ہے اللہ سے دعا کریں۔ اور میرے گھر والوں نے کہا اگر تم اس کو نہیں چھوڑو گے تو اگر امی کو کچھ ہوگیا تو ہم تجھے امی کی شکل نہیں دیکھنے دیں گے۔ اس ٹائم میں ان کی باتوں میں آگیا۔ کیونکہ اس وقت امی کی حالت بہت خراب تھی۔ اور کہا امی کو ٹھیک ہونے دو پھر اس کی بات کریں گے۔ میری باجی نے کہ جو کرنا ہے ابھی کرنا ہے۔ اور وہ مجھے زبردستی وہاں سے نکاح خواہ کے پاس لے گئے اور ابو بھی ساتھ گئے۔ جس وکیل نے ہمارے شادی کی تھی وہ وکیل اسٹام لے کر آیا۔ اور ایک رجسٹر پر مجھ سے پہلے سائن کروائے۔ جو کہ وکیل کے پاس ہی تھا۔ پھر اس کے بعد اسٹام کے اوپر بھی سائن کروائے اور اس کے بعد اس نے ہم کو بھیج دیا۔ اور اتنا ہی بتایا کہ ہم تمہاری بیوی کو طلاق بھیج رہے ہیں۔ اور میں نے دل میں یہ سوچ کر کہ میں اس کو بتادوں گا کہ انہوں نے زبردستی مجھ سے سائن کروائے ہیں۔ جو اسٹام پیپر پر جو بھی لکھا ہے سب جھوٹ ہے۔ جو لفظ انہوں نے لکھے ہیں وہ سب گھروالوں نے اپنے پاس سے لکھوائے ہیں۔ اور انہوں نے خالی اسٹام پر مجھ سے سائن کروائے تھے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے دل سے اسے طلاق نہیں دی اور نہ کبھی ایسا سوچھا۔ میں تو ابھی بھی اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں۔ مجھے انصاف چاہیے۔ فیصلہ میرے حق میں کیا جائے۔ میں نے اسے ابھی تک حق مہر بھی نہیں دیا۔ اور نہ ہی میں سے چھوڑنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ پاک میرے حق میں ہی فیصلہ کریں گے۔ میں بہت پریشان ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک تو سائن (دستخط) زبردستی کروائے گئے ہیں اور دوسرے وہ بھی خالی اسٹام پیپر پر کروائے گئے ہیں اس لیے مذکورہ صورت میں کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ نکاح بدستور قائم ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved