• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خلوت صحیحہ کے بعد طلاق

استفتاء

اگر نکاح ہوا ہو اور میاں بیوی کے درمیان  بوس وکنار   ہوچکاہو۔ پھر  کسی معاملے کی وجہ سے غصہ میں آکر شوہر نے تین  دفعہ یہ کہہ دیا ہو کہ” میں نے تمہیں طلاق دی” اور شوہر کے بقول اسے یہ یاد نہیں اس نے یہ لفظ کتنی دفعہ کہے ہیں لیکن بیوی کو یاد ہے۔ اب ان کے لیے کیا حکم ہے؟کیا وہ دوبارہ اس رشتہ میں منسلک ہوسکتے ہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے: میاں بیوی کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جواب وضاحت: زید(شوہر)********                                       زینب(بیوی)**********

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ ہماری تنہائی اس طرح ہوئی تھی کہ گھر میں فیملی والے سب جمع تھے تو ایک کمرے میں ہمیں موقع ملا، کمرے کا دروازہ بند تھا، ہم 5/10 منٹ تک وہاں رہے۔ اس دوران صرف بوس وکنار ہوا تھا پھر کسی معاملے میں غصہ میں آکر میں نے کئی مرتبہ بیوی کو یہ لفظ بول دیا۔

وضاحت مطلوب ہے:1۔ کیا آپ اگر صحبت کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے؟ صحبت کیوں نہیں کی وجہ کیا تھی؟2۔تنہائی کہاں ہوئی تھی؟ گھر کن کا تھا؟ 3۔کمرے میں کسی کے آنے کا خطرہ تھا یا نہیں؟

جواب وضاحت: 1۔ جی بالکل کرسکتے تھے لیکن نہیں کی کیونکہ ہمارے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی اور اس طرف دھیان بھی نہیں تھا۔2۔ اپنے گھر کا کمرہ تھا اور گھر میرا تھا۔3۔ اس وقت گھر میں کوئی موجود نہ تھا زیادہ تر افراد باہر صحن میں تھے اور اپنی باتوں میں مصروف تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں  اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہٰذا  اب نہ  رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: نکاح کے بعد میاں  بیوی میں خلوت صحیحہ ہو چکی ہو اور خلوت صحیحہ کے بعد  شوہر طلاق دے دے تو عورت پر عدت بھی واجب ہوتی ہے اور اس عدت میں دی گئی مزید طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں  مذکورہ صورت میں چونکہ خلوت صحیحہ کے بعد شوہر نے تین متفرق طلاقیں دی ہیں اس لیے شوہر کا کئی دفعہ طلاق کا لفظ بولنے کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں۔

نوٹ: خلوت صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ مرد،  عورت دونوں ایسی جگہ میں تنہا جمع ہو ں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی ، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ  کیا ہو۔

ہندیہ(1/304) میں ہے:

‌والخلوة ‌الصحيحة أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا، كذا في فتاوى قاضي خان والخلوة الفاسدة أن لا يتمكن من الوطء.

الدر المختار (3/114) میں ہے:

(‌والخلوة) ‌مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء ……….. (كالوطء) فيما يجيء ……… ‌في (‌تأكد ‌المهر) ‌المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها …….. وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار.

شامی (3/119) میں ہے:

‌والحاصل ‌أنه ‌إذا ‌خلا ‌بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه.

والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لأن طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطا

ہندیہ (1/473) میں ہے:

وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved