- فتوی نمبر: 9-240
- تاریخ: 14 جنوری 2017
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
دار الافتاء کے مفتیان کرام کے لیے درج ذیل مسئلہ پیش خدمت ہے:
مسئلہ: *** اور *** کا مشورہ ہوا کہ مل کر حجاج اور معتمرین کو کھانا فراہم کرنے کے لیے کیٹرنگ کا کام کرتے ہیں۔ مناسب جگہ کی تلاش شروع ہوئی، *** کے ایک جاننے والے، یعنی ***، کی جگہ پسند کی گئی، اور ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ پندرہ سال کے لیے اس جگہ کو کرائے پر لینے پر اتفاق ہو گیا، مطبخ کا نقشہ تیار کیا گیا، اور اس کی تعمیر *** اور *** کے سرمائے سے شروع ہوئی۔ تعمیر کے دوران *** یعنی مالک زمین نے کرایہ ڈیڑھ لاکھ سے کم کر کے ایک لاکھ پچیس ہزار کر دیا، اس بنیاد پر کہ زمین کا کچھ حصہ ان کے اپنے استعمال میں ہے، اوراس کا کرایہ نہیں وصول کیا جا سکتا۔ *** نے دوران تعمیر اپنے حصہ میں ایک دوست *** کا بھی سرمایہ لگوا دیا۔
کل سرمایہ تقریباً تین لاکھ لگا، جس میں *** کا ایک لاکھ، *** کا ایک لاکھ، *** کے ستر ہزار اور *** کے تیس ہزار ہے۔
زمین کا سودا، اس پر تعمیر کے لیے اس کی رجسٹری کرانا، نقشہ جات کا بنوانا، ان کو بلدیہ سے منظور کرانا، ٹھیکداروں سے اتفاق کرنا، تعمیر کی ساری نگرانی، مطبخ میں ضرورت کے آلات کا ڈھونڈ کر خریدنا، مطبخ کے لیے عملے کا انتظام کرنا، مطبخ کو قانونی طور پر متعلق حکومتی اداروں سے منظور کروانا وغیرہ وغیرہ، یہ سارے کام *** نے تقریباً دو سال کے عرصے میں کیے۔
آگے چلانے کے لیے بھی تمام شرکاء اس پر متفق ہیں کہ *** ہی چلائے گا۔
مطبخ کے چلانے کی ترتیب عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ پہلے مارکیٹنگ کی جاتی ہے، گاہک اپنے کھانوں کی نوعیت اور مقدار بتاتا ہے، ریٹ اور وقت طے ہوتے ہیں، گاہک ایڈوانس دیتا ہے، جس کو لے کر *** ضرورت کا سامان خریدتا ہے اور پکوا کر تیار کرا کر گاہک کو پہنچا آتا ہے۔
تینوں شرکاء نفع نے تقسیم میں یہ سمجھوتہ کیا ہے کہ:
1۔ کرائے کے علاوہ سارے اخراجات نکالنے کے بعد جو پیسہ بچے گا، اس میں سے سب سے پہلے *** کا حصہ اس کے راس المال کے حساب سے نکالا جائے گا۔
2۔ اس کے بعد جو پیسہ بچے گا اس میں سے زمین کا کرایہ منہا کر لیا جائے گا۔
3۔ پھر جو رقم بچے جائے اس کو ***، *** اور *** میں راس المال کے حساب سے تقسیم کر دیا جائے گا۔
4۔ پھر تینوں شرکاء یعنی ***، *** اور *** اپنے نفع کا دس فیصد حصہ *** کو شریک فاعل ہونے کی وجہ سے دیں گے۔
5۔ تینوں شرکاء کا یہ اتفاق بھی تھا کہ مطبخ کو تیار کرنے کے لیے اب تک جو کام *** کو دو سال کی مدت میں کرنے پڑے ہیں، اس کے لیے *** کو ایک معقول سی تنخواہ دی جائے گی۔ لیکن تنخواہ کی مقدار طے نہیں ہو پائی۔
اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
1۔ اس شرکت کی کیا کییف ہے؟ شرکۃ ملک، شرکت عقد، شرکت تقبل و اعمال، یا استصناع وغیرہ؟ اور اس پر اس تکییف کے اعتبار سے کیا احکام مرتب ہوتے ہیں؟
2۔ زمین کے کرایہ کی تقسیم ***، *** اور *** پر کس طرح ہو گی؟ افراد کے اعتبار سے تینوں میں برابر تقسیم ہو گی، یا راس المال کے اعتبار سے؟
3۔ *** کے شریک ہونے سے قبل زمین کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ تھا، کیا شریک ہونے کے بعد بھی ڈیڑھ لاکھ ہی رہے گا، یا اسے کم کرنا ضروری ہے؟ کیونکہ اب *** بھی تو اسے استعمال کر رہا ہے۔
4۔ *** کا یہ مطالبہ ہے کہ مطبخ کو تیار کرنے کے لیے دو سال کے محنت کی اجرت کا حساب اس طرح لگایا جائے کہ بقیہ شرکاء، یعنی ***، *** اور *** کا جتنا سرمایہ تعمیر وغیرہ میں لگا، وہ چونکہ اب متعین ہو گیا ہے، لہذا اس کا دس فیصد یعنی بیس ہزار روپے، *** کو گذشتہ کاموں کی اجرت کے طور پر ملے۔ کیا ایسا کرنا اس کے لیے درست ہے؟ واضح رہے کہ جو کام *** نے دو سال کی مدت میں کیے ہیں، مجموعی طور پر وہ کام ایسے نہیں ہیں کہ جن کی مارکیٹ میں مثل موجود ہو کہ جس کی بنیاد پر اجرت مثل کا اندازہ کیا جا سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت شرکت العقد (اموال اور پھر عنان) کی ہے، جس میں شرکاء نے اس بات پر سمجھوتہ کیا ہے کہ وہ آرڈر پر کھانا بنا کر اسے فروخت کریں گے، اور آمدن کو باہم تقسیم کر لیا کریں گے۔
شركة العقد عبارة عن عقد شركة بين اثنين أو أكثر على كون رأس المال والربح مشتركاً بينهما أو بينهم. (شرح المجلة: 4/ 252)
اس شرکت میں ایک شریک (***) عامل ہے، جبکہ باقی شرکاء غیر عامل ہیں۔
شرکت میں ایک اصول یہ ہے کہ تمام اخراجات پہلے منہا کیے جاتے ہیں، اور پھر باقیماندہ نفع کو طے شدہ تناسب سے سب شرکاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس تکییف کے پیش نظر مذکورہ معاملے میں درج ذیل باتیں اصلاح طلب ہیں:
الف:۔ *** کا نفع زمین کی اجرت سے قبل نکالنا درست نہیں ہے۔ بلکہ *** بھی نفع کی تقسیم اور حصول میں باقی شرکاء کے ساتھ اپنے حصے کے بقدر شریک ہو گا۔
ب:۔ اسی طرح *** اور *** کا *** کو اپنے منافع میں سے (10) دس فیصد دینا بھی درست طریقہ نہیں۔ ہاں *** کی محنت کا معاوضہ دینے کی صورت یہ ہے کہ اس کے مجموعی منافع کے تناسب میں اضافہ کر دیا جائے۔
*** چونکہ عامل شریک ہے، اس لیے اس کو اپنے سرمائے کے تناسب سے زیادہ بھی نفع دیا جا سکتا ہے۔ البتہ غیر عامل شرکاء کو ان کے سرمائے کے تناسب سے زیاد نفع دینا درست نہیں۔
وإن كان المالان متساويين فشرط لأحدهما فضلاً على ربح ينظر إن شرط العمل عليهما جميعاً جاز والربح بينهما على الشرط في قول أصحابنا الثلاثة…. فإن شرط العمل على أحدهما فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح جاز والربح بينهما على الشرط. فيستحق ربح رأس ماله والفضل بعمله وإن شرطاه على أقلهما ربحاً لم يجز لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال ولا عمل ولا ضمان، وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة. (بدائع الصنائع 5/83)
2: زمین کا کرایہ شرکت کے اخراجات میں سے شمار ہو گا۔ چنانچہ آمدن میں سے پہلے اخراجات نکالے جائیں گے، اور پھر باقیماندہ نفع تقسیم ہو گا۔ اگر نفع نہ ہوا ، تو اخراجات خسارہ شمار ہوں گے، اور راس المال میں سے ہر ایک کے سرمایہ کے تناسب سے لیے جائیں گے۔
والوضيعة على قدر رأس المالين متساوياً ومتفاضلاً لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال. (بدائع الصنائع: 5/83)
3۔ *** کے شریک ہونے کی وجہ سے زمین کا کرایہ کم کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ *** کو جو کرایہ مل رہا ہے، اس میں اس کا اپنا نفع یا راس المال بھی شامل ہے۔ نیز کرایہ کم کرنے سے اس کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔
4۔ *** نے گذشتہ دو سال میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ شرکت عقد کے اصل کام سے متعلق نہیں۔ اس لیے وہ علیحدہ اجارہ شمار ہو گا، مگر چونکہ ان امور کی اجرت طے نہیں اس لیے یہ اجارہ فاسدہ شمار ہو گا، جس پر اجرتِ مثل آئے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کام اگر کسی باہر کے بندے سے کروایا جاتا تو وہ کتنے معاوضے کا مطالبہ کرتا۔ اس سلسلے میں تحقیقی اندازہ ضروری نہیں، تقریبی اندازہ بھی کافی ہے۔ نیز فریقین باہمی رضا مندی سے کسی مقدار پر اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved