- فتوی نمبر: 22-362
- تاریخ: 10 مئی 2024
استفتاء
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سےثابت ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے کی کسی چیز پر قرآن پڑھ کر پھونک مارتے تھے؟
وضاحت مطلوب ہے:آپ کی اس سے کیا مراد ہے؟
جواب وضاحت:اصل میں ہم سنتے آئے ہیں کہ کھانے پینے کی چیزوں پر پھونک نہیں مارنی چاہئےتو میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کیا قرآن پڑھ کر بطور دم کھانے پینے کی چیز پر پھونک مارنا صحیح ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کھانے پینے کی چیزوں پر پھونک مارنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے اور اسکی وجہ محدثین نے یہ بیان کی ہےکہ کبھی پھونک کے ساتھ تھوک ،بلغم وغیرہ بھی نکل آتا ہے جو اگر پانی میں گر جائے تو اس پانی سے طبیعت میں گھن پیدا ہو جاتی ہے لیکن دم والے پانی کا یہ حکم نہیں ہے كیوں کہ ایک تو خود حضور ﷺ اور صحابہ ؓ سے پانی پر دم کرنا ثابت ہےدوسرے اس وجہ سے بھی کہ دم والی پھونک اللہ تعالی کا نام لے کر پھونکی جاتی ہےجس کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہو جاتی ہےاور طبیعت اس سے گھن نہیں کرتی۔
فتح الباری – ابن حجر جلد 1صفحہ253 میں ہے:
"وهذا النهي للتأدب لإرادة المبالغة في النظافة إذ قد يخرج مع النفس بصاق أو مخاط أو بخار رديء فيكسبه رائحة كريهة فيتقذر بها هو أو غيره عن شربه”
فتح الباری – ابن حجر جلد 10صفحہ 92 میں ہے:
"وجاء في النهي عن النفخ في الإناء عدة أحاديث وكذا النهي عن التنفس في الإناء لأنه ربما حصل له تغير من النفس إما لكون المتنفس كان متغير الفم بمأكول مثلا أو لبعد عهده بالسواك والمضمضة أو لأن النفس يصعد ببخار المعدة والنفخ في هذه الأحوال كلها أشد من التنفس "
مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الطِّبِّ حديث: 22895 ہے:
"عن عائشة أنها كانت لا ترى بأسا أن يعوذ في الْماء ثم يصب على الْمريض”
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پانی پر معوذتین کا دم کرنے اور پھر مریض پر انڈیلنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھیں۔
صحیح بخاری،کتاب المغازی، باب غزوة الخندق وہی الأحزاب حدیث نمبر 3876 میں ہے:
"۔۔فأخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك۔۔۔الخ”
ترجمہ: حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری بیوی نےگندھا ہوا آٹا نکالا اور حضورﷺ نے ا س میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی پھر ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔
سنن ابی داود "باب ما جاء في الرقى” حدیث 3885 ہے:
"عن رسول الله صلَّى الله عليه وسلم أنه دخل على ثابت بن قيس قال أحمد: وهو مريض فقال: “اكشف الباس رب الناس، عن ثابت بن قيس بن شماس” ثم أخذ ترابا من بطحان فجعله في قدح، ثم نفث عليه بماء، ثم صبه عليه”
ترجمہ: نبی ﷺ، ثابتِ بنِ قیس کے پاس تشریف لائے- احمد کہتے ہیں: وہ مریض تھے، پس آپ ﷺنے کہا: اے انسانوں کے رب ! ثابت بن قیس سے تکلیف کو دور کر، ، پھر بُطحانَ کی مٹی لی اس کو ایک پیالہ میں ڈالا، پھر اس میں پانی کے ساتھ دم کیا ، پھر اس کو ان کے سر پر انڈیلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved