• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ زمین حاصل کرنے کے لیے ایک شریک کا خرچہ کرنا

استفتاء

وزیر اعلی نے ایک سکیم کے تحت سرکاری ملازمین کے درمیان زمین تقسیم کی اور میرے والد کو سیاسی تعلق کی وجہ سے زمین دی جو کھلی پڑی ہوئی تھی کسی خاص شخص کی ملکیت میں نہیں تھی، والد صاحب نے اپنے سمیت کل پانچ افراد کے نام وہ زمین لگوا دی جو ہر شخص کے حصہ 2/1، 12 ایکڑ آئی زمین ملنے کے ایک یا دو سال بعد جنرل ضیاء الحق نے وہ جگہ منسوخ کردی ۔ والد صاحب نے رشتہ داروں کو بتائے بغیر سٹے اپنے جان لگا کر مال لگا کر اور زمین پر کاشت کرتے رہے اور اپنا گھر زمین میں بنا لیا، جن رشتہ داروں کے نام زمین تھی کچھ رشتہ دار کچھ عرصہ وہاں مقیم رہے مگر جنگل ہونے کی وجہ سے واپس آگئے۔

کچھ عرصہ والد صاحب نے رشتہ داروں سے کہا کہ زمین پر ملنے پر میرا خرچہ آیا لہذا اس کے عوض کچھ نہ کچھ پیسے دو تو رشتہ داروں نے کہ کہا کہ ہمارا بھی ایک پلاٹ ہے اس کو بیچ کر تم پیسے لے لو لیکن والد صاحب نے اس جگہ کو نہ بیچا، نہ ہی کوئی پیسے لیے۔ پھر جمہوری حکومت آئی تو میرے والد صاحب نے عدالت کے ذریعے وہ جگہ دوبارہ حاصل کرلی اور ان تمام رشتے داروں کے نام رجسٹری و انتقال کروا دیا۔ والد صاحب نے جتنا خرچا کیا اپنی مرضی سے کیا اور یہ بات طے نہ کی کہ میں بعد میں تم سے سے پیسے لوں گا۔ ان رشتے داروں نے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا۔

اس کے بعد ایک بڑے آدمی نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے والد صاحب مشترکہ زمین کی فصل کی قیمت میں سے تمام شرکاء کو ایک ایک لاکھ روپیہ ادا کر کے ان سے ان کی جگہ لے لیں گے، سب شرکاء نے یہ فیصلہ مان لیا، البتہ رقم کی ادائیگی کی مدت متعین نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ایک شریک نے  50 ہزار روپیہ اور دوسرے نے تقریباً 60 ہزار روپیہ اور تیسرے نے کچھ نہیں وصول کیا۔

بعد ازاں ایک آدمی ان شرکاء سے کہا کہ میں تمہاری زمین 5، 5 لاکھ میں خرید لیتا ہوں چنانچہ دو شریک اس  کو بیچنے پر تیار ہوگئے مگر کسی وجہ سے اس کے ہاتھ سودا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد پھر یہ فیصلہ طے ہوا کہ میرے والد صاحب دو شرکاء کو 2، 2 لاکھ ادا کریں گے جبکہ تیسرے شریک نے کوئی بات نہ کی اور دو شرکاء نے بیعانہ کے طور پر 5-5 ہزار روپے وصول کر لیے اور چار ماہ کی مدت طے ہوئی کہ اگر والد صاحب نے اس مدت میں پیسے ادا کر دیے تو ٹھیک ورنہ یہ سودا ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد والد صاحب نے ایک فریق کی جگہ کو 6 لاکھ روپے میں بیچ کر ایک شریک کو ایک لاکھ چالیس ہزار روپے دے دیے جس کو پہلے تقریباً 60 ہزار دیا تھا چنانچہ اس کے دو لاکھ پورے ہوگئے اور دوسرے شریک کو ایک لاکھ 95 ہزار رقم آگئی۔

والد صاحب نے کہا کہ باقی رقم بعد میں ادا کی جائے گی اور اپنے نام رجسٹری اور انتقال کروا لیا بعد میں یہ دو شریک کہنے لگے کہ ہمیں جگہوں کی پوری قیمت یعنی 6 لاکھ روپیہ ادا کی جائے۔ آیا اس بات پر یہ دو فریق صحیح ہیں یا میرے والد؟

تیسرا شریک جو میرے نانا جان تھے انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیٹی یعنی میری والدہ کے نام جگہ لگوا دیتا ہوں اور مجھے بھی تم خوشی سے دو گے میں لے لوں گا۔ انہوں نے بذریعہ عدالت اپنا حصہ اپنی بیٹی کے نام کروا دیا۔ جبکہ وہ صحیح، تندرست اور حیات تھے، مگر وہ معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوگئے تھے ان کی زمین کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

چوتھا شریک میرے دادا جان تھے جو زمین منسوخ ہونے سے قبل وفات پاگئے۔ ان کے حصے کی زمین کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی مسئلہ ہذا کے حتی الامکان تمام اور مختلف پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی حکم بیان فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ان دو فریق کی بات غلط ہے۔

2۔ بیٹی کو ہبہ کرنے میں نانا کی طرف سے معاوضہ کی شرط فاسد تھی اس لیے وہ شرط لغو ہوگئی اور ہبہ صحیح ہوگیا۔

3 چوتھے شریک کی زمین ان کے وارثوں کو ملے گی البتہ جو خرچہ آپ کے والد نے کیا وہ خرچہ آپ کے والد ورثاء سے ان کے حصوں کے بقدر لے سکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved