- فتوی نمبر: 23-208
- تاریخ: 26 اپریل 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم! میرا نام*** ہے ، میری شادی 2014 میں ہوئی، دو سال تک میں شوہر کے پاس رہی ، ان دو سالوں میں میں نے ہر طرح سے کمپرومائز کیا، جاب بھی کی ، اس دوران ان کو ہارٹ اٹیک بھی ہوا، میں نے دن رات ایک کر کے اس کی ہر طرح سے خدمت کی ، شادی کے دوسرے سال ہی ان کا رویہ بدل گیا، وہ غلط حرکتیں کرنے لگ گیا تھا ، وہ شخص مجھے ذہنی اذیت دیتا تھا، رات کو چار پانچ دوستوں کوگھر میں لاتا تھا اور کمپیوٹر پر وہ گندی فلمیں دیکھا کرتے تھے، اور مجھے بھی زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتا تھا، وہ قضائے حاجات کے بعد استنجاء بھی نہیں کرتا تھا ، وہ اپنے جسم کے ساتھ ہی کھیلتا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی خواہش پوری کرتا تھا، رات رات بھر غیر مرد گھر میں ہوتے تھے، وہ مجھے بیچنے کی بھی دھمکی دیتا تھا، کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا، میں والدہ کے گھر آ گئی، اس کی ان حرکتوں کا ذکر میں نے اپنی بڑی بہن اور شوہر کی پھوپھی سے بھی کیا، وہ اپنی بہنوں کے ساتھ میری والدہ کے گھر آیا اورمجھے دھمکی بھی دی، مجھے دھمکیاں دیتا تھا کہ اب تو گھر آ پھر تجھے بتاتا ہوں کہ شوہر کیسا ہوتا ہے۔ اسکی آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی اس نے مجھ سے نوکری کروائی گھر کا کرایہ میں خود دیتی تھی، یہ جو کچھ کماتا تھا خود پر اور اپنی گاڑی پر لگاتا تھا، وہ ہر وقت ننگا رہتا تھا، ناکام رہتا تھا اور مجھے بھی اسی حالت میں رکھتا تھا ، خلع لینے کی یہی وجوہات ہیں۔میرے والد نے وکیل سے رجوع کیا اور پھر خلع کا کیس کیا، میں کورٹ بھی گئی، عدالت نے اس کے گھر نوٹس بھی بھیجا اور ان لوگوں نے نوٹس وصول بھی کیا ، مگر وہ نہیں آیا، جج نے میرے حق میں یکطرفہ فیصلہ دے دیا ، اس کے بعد میں نے عدت گزاری، اب جب دوسری شادی ہونے لگی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ میرا پہلا نکاح ختم نہیں ہوا، اب میں بہت پریشان ہو گئی ہوں کیونکہ میرے شوہر نے تو انہی دنوں گھر چھوڑ دیا تھا، معلوم نہیں اب وہ کہاں ہو گا ، اس سے طلاق لینا ممکن نہیں ہے، میری راہنمائی فرمائیں کہ کیا میرا نکاح ختم ہو گیا ہے؟ اور کیا میں آگے نکاح کر سکتی ہوں؟
وضاحت مطلوب ہے کہ
جتنا عرصہ آپ گھر رہی ہیں شوہر تو خرچہ نہیں دیتا تھا پھر گھر کا کھانا پینا کیسے چلتا تھا؟خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد شوہر نے عدت کے دوران خرچہ دینے اور اپنا رویہ درست کرنے کا اظہار کیا تھا؟
جواب وضاحت: تقریبا ایک سال تک جاب کر کے میں گھر کا کرایہ دیتی رہی، راشن بھی میں اپنی جاب کی کمائی سے ڈالتی تھی، اور جب میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو میری بہن راشن لے کر دیتی تھی، شوہر کے پاس وین تھی، جو تھوڑا بہت کماتا تھا اپنے پاس رکھتا تھا یا وین پر لگاتا تھا ، مجھے کچھ نہیں دیتا تھا۔ شوہر نے نہ رابطہ کیا اور نہ رجوع کیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ (1) شوہر نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (2) بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف بھی نہیں کیا تھا اور (3) تنسیخ نکاح کی درخواست بھی اس وجہ سے دی تھی کہ اس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا اور (4) عدالت کے نوٹس بھیجنے کے باوجود بھی شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا اور (5) عدالت نے شوہر کے خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دی، اور بیوی کی عدت گزرنے تک شوہر نان نفقہ دینے پر آمادہ نہیں ہوا لہذا عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا تعنت ( استطاعت کے باوجود نان نفقہ ادا نہ کرنا) پایا جا رہا ہے لہذا عدالتی خلع شرعا مؤثر ہے۔
فتاوی عثمانی(2/462) میں ہے:(1) اگر کوئی شوہر ایسا ہو جو باوجود استطاعت کے اپنی بیوی کو نان و نفقہ نہیں دیتا اور عورت کے پاس نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو اور شوہر طلاق یا خلع کے لئے بھی تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ مالکی مذہب کے مطابق اس شوہر سے عدالت کے ذریعے خلاصی حاصل کر سکتی ہے۔(2)خلاصی حاصل کرنے کے لئے عورت اپنا مقدمہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ فلاں کی بیوی ہے اور وہ باوجود استطاعت کے اس کو نان و نفقہ نہیں دیتا اور نہ اس کے پاس نان و نفقہ کا کوئی انتظام ہےجس سے اس کو سخت ضر ر لاحق ہے اور وہ اس وجہ سے اس کی زوجیت سے نکلنا چاہتی ہے۔(3) عورت "فلاں” کے ساتھ نکاح اور اس کا مذکورہ رویہ گواہوں سے ثابت کرے اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں یا گواہ ہوں لیکن اس نے پیش نہ کئے تو اگر شوہر عدالت میں حاضر ہو تو اس سے قسم لی جائے گی، اگر اس نے قسم کھانے سے انکار کیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ عورت کا دعوی درست ہے، اب جج شوہر سے کہے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو یا طلاق/خلع دو ورنہ ہم تفریق کر دیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی کوئی مہلت دیئے بغیر اسی وقت بیوی پر طلاق واقع کر دے۔(4) لیکن شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر نہ ہو، جیسا کہ آج کل عموما ایسا ہی ہے، اور عدالت کے بار بار نوٹس اور سمن جاری کرنے اور شوہر نوٹس اور سمن کے بارے میں مطلع ہونے کے باوجود عدالت حاضر نہ ہوتا ہو تو اگر بیوی کے پاس گواہ موجود ہوں اور وہ پیش بھی کرے تو جج ان کی گواہی کی بنیاد پر بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرے،اور اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں، یا ہوں لیکن وہ پیش نہ کرے تو شوہر کا بار بار بلانے کے باوجود عدالت میں حاضر نہ ہونا اس کی طرف سے قسم سے انکار (نکول) سمجھا جائے گا اور اس کی بنیاد پر عدالت شوہر غائب کے خلاف اور بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرے گی۔۔۔۔۔۔۔الخ(5) بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ درخواست برائے فسخ نکاح نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے ، اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو بنیاد بنائے،خلع کا طریقہ کار ہرگز اختیار نہ کرے،اس لئے کہ یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو یعنی شوہر کا "تعنت”ثابت ہو رہا ہو البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے بشرطیکہ یہ فیصلہ مذکورہ بالا شرائط اور طریقہ کار کے مطابق ہو۔
حیلہ ناجزہ (ص:73 طبع دارالاشاعت) میں ہے:متعنت اگر اپنی حرکت سے اس وقت باز نہ آئے جب کہ حاکم اس کی زوجہ پر طلاق واقع کر چکے اور عدت بھی گزر چکے تو اب اس کا کوئی اختیار زوجہ پر نہیں رہتا ( کیونکہ عدت گزرنے کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا گو طلاق رجعی ہی البتہ تراضی طرفین سے نکاح ہو سکتا ہے) اور اگر انقضائے عدت سے پہلے پہلے اپنی حرکت سے باز آجائے اور نفقہ دینے پر آمادہ ہوجائے تو اس بارے میں مالکیہ کے مذہب میں صریح روایت نہیں، اس لیے ارباب فتوی کے نزدیک دو احتمال ہیں: ایک یہ کہ اس تفریق کو طلاق رجعی قرار دیا جائے اور عدت کے اندر اندر رجعت کو صحیح کہا جائے، دوسرا یہ کہ طلاق بائنہ قرار دی جائے اور رجعت کا حق خاوند کو نہ دیا جائے لیکن علامہ صالح نے احتمال اول کو اقرب لکھا ہے (كما فى الرواية الرابعة عشر مع التنبيه و التلخيص من الفتوى الثانية للعلامة الصالح) اور ہم کو بھی علامہ صالح کی رائے ان کے فتوی میں غور کرنے کے بعد درست معلوم ہوتی ہے، اس واسطے ہمارے نزدیک فتوی یہی ہے کہ عدت کے اندر اندر تعنت سے باز آ جانے کی صورت میں عورت کو اسی کے پاس رہنا پڑے گا خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو، کیونکہ رجعت میں عورت کی رضامندی ضروری نہیں مگر احتیاطا تجدید نکاح ہو جائے تو بہتر ہے (فقط والله اعلم بالصواب و اليه المرجع و الماب)
حیلہ ناجزہ (ص:72 طبع دارالاشاعت) میں ہے:زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے) کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو الخ "
تنبیہ: خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو یا اس کے عزیز و اقارب اس کا نفقہ برداشت کرنے پر تیار ہوں مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں، "حیلہ ناجزہ” میں اس شرط کے لگانے اور مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ (72) میں ہے:و هذا الحكم عندالمالکية لا يختص بخشية الزنا و إفلاس الزوجة لكن لم نأخذ مذهبهم على الإطلاق بل أخذناه حيث وجدت الضرورة المسوغة للخروج عن المذهب.ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق لیا ہے کیونکہ اب عدالتیں اپنے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت یا عورت کے عزیز و اقارب کے نفقہ برداشت کرنے کو) ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved