• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خریداری کا آرڈر

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ مذکورہ خریداری کے سلسلے میں ** کو جب کسی بڑی چیز کی خریداری کی ضرورت ہوتی ہے تو اس ضرورت کے مطابق خریداری کا آرڈر تیار کیا جاتا ہے جس میں چیزوں کی تعداد، نام اور دیگر معلومات درج کی جاتی ہیں اور جس کمپنی سے وہ سامان خریدنا مقصود ہوتا ہے، اس کمپنی کو آرڈر بذریعہ واٹس ایپ ارسال کر دیا جاتا ہے اس کے علاوہ چھوٹی چیزوں کی خریداری ** کی طرف سے خود بازار جاکر کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی آرڈر وغیرہ بھیجنے کی نوبت نہیں آتی۔

خریداری کا مذکورہ طریقہ کار شرعاً کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق واٹس ایپ کے ذریعے خریداری کا آرڈرکرنا شرعا درست ہے تاہم عقد اس وقت تام (مکمل) ہو گا جب مبیع (سامان) خریدار تک پہنچ جائے۔

(۱)         شرح المجلة: (۲/۳۱):

(المادة: ۱۷۲۰) لاينعقد البيع بصيغة الامر أيضاکبع واشتر الا اذا دلت بطريق الاقتضاء علي الحال۔ اللفظ الذي يدل علي انشاء البيع في الحال۔ فاندفع مايقال ان الذي دلت عليه ’’خذ‘‘ بطريق الاقتضاء في المثال الآتي هو ’’بعت‘‘ و هو ماض لاحال۔ فحينئذ ينعقد بها البيع فلو قال المشتري بعني هذا الشي بکذا من الدراهم و قال البائع بعتک لا ينعقد البيع، أمالو قال البائع للمشتري خذ هذا الشي بکذا من الدراهم وقال المشتري أخذته، أوقال المشتري أولا اخذت هذا الشي بکذا قرشاً، وقال البائع خذه، أوقال الله يبارک لک و مثله، انعقد البيع فان قوله ’’خذه‘‘ والله يبارک لک هاهنا بمعني ها أنا بعت فخذ۔

(۲)         الفتاويٰ الهندية: (۳/۴):

اذا قال البائع، اشتر مني فقال اشتريت فلاينعقد مالم يقل البائع بعت أويقول المشتري بع مني فيقول بعت، فلابد من ان يقول ثانيا اشتريت۔

(۳)         فقه البيوع: (۱/۹۵):

فالصحيح ان اتفاقية التوريد لاتعد ومن الناحية الشرعية من ان تکون تفاهما ومواعدة من الطرفين، اما البيع الفعلي فلاينعقد الاعند تسليم المبيعات۔

(۴)         فقه البيوع: (۱/۳۴):

صيغة الاستقبال لاينعقد بها البيع، لانه مساومة، اووعد، فمن قال: بعني هذا الثوب بعشرة۔‘‘ فهذه مساومة، و اذا قال: ’’أبيعک‘‘ فهذا وعد، فالمضارع والامر لايدلان علي انشاء العقد، فصيغة الماضي هي التي تدل علي انشاء العقد

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved