- فتوی نمبر: 14-261
- تاریخ: 19 ستمبر 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
زید کی الیکٹرانک کی دکان ہےزید کے پاس جو کسٹمر آتے ہیں ،زیدان کو دو قسم کا ریٹ بتاتا ہے ،ایک وارنٹی کا اور ایک غیر ورانٹی کا ۔مثلا ایک فریزر ورانٹی کے ساتھ 60 ہزار کا ہے، بغیر ورانٹی کے 50000 کا ہے۔ اس طرح کا معاملہ کسٹمر کے ساتھ شرعا درست ہے یا نہیں؟
نوٹ: ورانٹی دکاندار اپنی طرف سے دیتا ہے یعنی قیمت پچاس ہزار ہے تو دکاندار کہتا ہے اگر میری طرف سے وارنٹی کے ساتھ لینی ہے تو 60000 کی ہوگی ۔
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔کیایہ بات کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے یادوکاندار اپنی طرف سے اس طرح کرتا ہے؟
۲۔اگر اپنی طرف سے کرتا ہے توریٹ کا فرق کیوں کرتا ہے؟ ذرا تفصیل سے بیان کریں
جواب وضاحت :
۱۔دکاندار کی طرف سے یہ ریٹ ہوتا ہے۔
۲۔ 60000 میں ورانٹی ہوتی ہے اور 50 ہزارمیں نہیں ہوتی ۔مطلب یہ ہے کہ 60000 میں مدت ایک سال بڑھ جاتی ہے اور 50000 میں دکاندار ذمہ داری نہیں لیتا، چاہے جب بھی خراب ہوجائے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بیچنے والے کا بیچی ہوئی چیز کی ایک مخصوص مدت کی ورانٹی دینے کا آج کل عرف عام ہےا ور جس شرط کا عرف ہو جائے اس کے ساتھ مشروط معاملہ کرنا جائز ہے لہذا ورانٹی والی چیز کی قیمت زیادہ لینا اورغیر وارنٹی والی چیز کی قیمت کم لینا جائز ہے۔
ان کل ماکان مبادلة مال بمال یفسد بالشرط کالبیع۔۔۔۔الااذا کان الشرط متعارفا(شامی:۵۲۵/۷)
فی فتح القدیر(۸۵/۴)
ومثله فی دیارنا شراء القبقاب علی هذا الوجه ای علی ان یسمرله سیرا۔۔۔۔۔۔ ومن انواعه شراء الصوف المنسوج علی ان یجعله البائع قلنسوة وبشرط ان یبطن لها البائع بطانة من عنده ۔
فقه البیوع :۴۹۹/۱
اما اذا کان الشرط متعارفا فالعرف یقضی علی انه لیس صفقة فی صفقة لان مجموع ماعقد علیه الامر اصبح بحکم العرف کانه شیئ واحد فصار کماباع شاتین بصفقة واحدة ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved