- فتوی نمبر: 7-374
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
غلہ منڈی میں زمیندار اپنا غلہ جس آڑھتی کے پاس لاتا ہے وہ آڑھتی مال کا ڈھیر لگا دیتا ہے اور بولی لگاتا ہے۔ بعض اوقات بولی لگانے والا یہ آڑھتی یہ مال خود بھی خریدنا چاہتا ہے تاکہ سٹاک کر کے کچھ عرصے بعد اسے فروخت کرے۔ خود خریدنے کے لیے وہ بولی لگانے کے ساتھ ساتھ بولی دیتا بھی رہے گا۔ اگر آخری بولی اسی کی ہو گی تو وہ خود رکھ لے گا اور کل قیمت کا 5% کمیشن (جو کہ اگر کوئی اور آڑھتی خریدتا تو اس نے زمیندار کے بل سے اسے وصول کرنا تھا) کاٹ کر باقی کا زمیندار کو بل بنا کر دے دے گا۔ کیا
آڑھتی کے لیے مال خود خریدنے کی صورت میں بھی زمیندار سے بولی لگانے کی پانچ فیصد کمیشن لینا شرعاً درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زمیندار کے سامان کی بولی لگانے والا آڑھتی اگر یہ سامان خود خریدنا چاہے تو اس کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ آڑھتی بولی میں شریک نہ ہو جب بولی ایک حد پہ آ کر رک جائے اور یہ آڑھتی آخری بولی سے زائد رقم پر مال خود خریدنا چاہے تو پہلے بولی کو ختم کرے اور پھر زمیندار سے خود خریدنے کی اجازت لے۔ زمیندار کی اجازت سے آڑھتی اس کا مال خود خرید سکتا ہے۔
خود خریداری کی صورت میں آڑھتی جو پانچ فیصد کمیشن کاٹتا ہے یہ اصلاً کمیشن نہیں بلکہ اس کی حیثیت زمیندار کی طرف سے 5% فیصد رعایت کی ہے۔ لہٰذا زمیندار کے سامنے وضاحت کر دی جائے کہ سودا تومثلاً 100 روپے پر ہو رہا ہے لیکن میں 5% فیصد رعایت پر یہ مال خریدوں گا۔ اگر زمیندار اس رعایت پر رضا مند ہو تو آڑھتی کے لیے اس مال کی خریداری جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔
(١) درر الحکام (١/٢٤١ المادة: ٢٥٦)
”حط البائع مقدارًا من الثمن المسمی بعد العقد صحیح و معتبر مثلاً لوبیع مال بمائة قرش ثم قال البائع بعد العقد حططت من الثمن عشرین قرشاً کان للبائع أن یأخذ مقابل ذٰلک ثمانین قرشاً فقط”۔
(٢)درر الحکام: (١/٢٤٢) (المادة: ٢٥٧)
زیادة البائع فی المبیع والمشتری فی الثمن و تنزیل البائع من الثمن بعد العقد تلحق بأصل العقد یعني یصیر کأن العقد وقع علی حصل بعد الزیادة والحط۔
(٣)الاختیار: (٢/١)
ولوحط بعض الثمن و المبیع قائم التحق بأصل العقد۔
(٤)الهندیة: (٣/٢) طبع شاملة
الباب الأول في تعریف البیع ورکنه وشرطه وحکمه وانواعه أماتعریفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي. والله تعالیٰ اعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved