- فتوی نمبر: 28-281
- تاریخ: 14 نومبر 2022
استفتاء
ہمارے محلے کی مسجد میں جمعہ کے دن جو چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے وہ خطیب صاحب کو دیا جاتا ہے ،خطیب صاحب جمعے کے علاوہ دوسری نمازیں بھی پڑھاتے ہیں اور ان کی دوسری نمازوں کی تنخواہ مقرر ہے لیکن جمعے کے لیے ان کی الگ سے تنخواہ مقرر نہیں ہے بلکہ جمعے کے چندے میں جتنی رقم جمع ہوتی ہے ان کے جمعے کی وہی تنخواہ ہے ،عام طور سے 1000کے قریب قریب چندہ ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ اتنا ہی ہو بلکہ کبھی کم و بیش بھی ہوتا ہے ، غرض یہ کہ جتنا چندہ اکھٹا ہو وہی ان کو جمعے کی تنخواہ ہے۔
کیا یہ صورت جائز ہے؟ یا پھر لوگوں کو بتانا چاہیے کہ چندے کے پیسے خطیب صاحب کو دیے جاتے ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
خطیب صاحب کو چندے سے تنخواہ دینا تو جائز ہے لہذا لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چندے کے پیسے خطیب صاحب کو دیے جاتے ہیں تاہم مذکورہ صورت میں چونکہ خطیب صاحب کی جمعہ پڑھانے کی تنخواہ طے شدہ نہیں ہے جبکہ شرعی لحاظ سے تنخواہ کا طے کرنا ضروری ہے لہذا جب تک جمعہ کی باقاعدہ تنخواہ مقرر نہ کی جائے ،مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔
شامى (6/562)میں ہے:
(ويبدا من غلته بعمارته ) ثم ما هو اقرب لعمارته كامام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك الى آخر المصالح
الدرالمختار(9/9) میں ہے:
وشرطها كون الاجرة والمنفعة معلومتين لان جهالتهما تفضي الى المنازعة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved