- فتوی نمبر: 13-344
- تاریخ: 10 اپریل 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماے عظام دریں مسائل کے بارے میں :
۱۔ خاوند اپنی بیوی کو کس نام سے پکارے؟ آیااسم ذاتی کیساتھ یااسم صفاتی یا کس لقب کیساتھ ؟
۲۔ نیز حضورﷺاپنی ازواج مطہرات کو کس طرح پکارتے یا بلاتے تھے؟
۳۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھمکا اس بارے میں کیا عمل تھا؟وبالعکس ؟قرآن اور حدیث کی روشنی میں درج بالا مسئلہ کو مدلل ومفصل بیان فرماکر ممنون و مشکور فرمایں ،جزاکم اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ ،
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ ہرطرح سے پکار سکتا ہے کوئی پابندی نہیں۔
۲۔ حضورﷺ سے کبھی نام اور کبھی اور لقب سے پکار نا دونوں طرح ثابت ہے۔سیدنا عائشہ ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں یا عائشہ بھی کہا اور یا حمیراء بھی کہا۔
۳۔ صحابہؓ کا مجموعی طرز عمل ہمیں معلوم نہیں اور معلوم نہ ہونے سے مسئلے کی نوعیت پر کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔
معجم الکبیر(400/22)شاملہ
۱۔ حدثنا عبد الله بن سعيد بن يحيي الرقي ثنا أحمد بن أبي شيبة الرهاوي ثنا أبو قتادة الحراني ثنا سفيان الثوري عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت : کنت أري رسول الله صلي الله عليه و سلم يقبل فاطمة فقلت يا رسول الله إني أراک تفعل شيئا ما کنت أراک تفعله من قبل فقال : يا حميراء إنه لما کان ليلة أسري بي إلي السماء أدخلت الجنة فوقفت علي شجرة من شجر الجنة لم أر في الجنة شجرة هي أحسن منها حسنا ولا أبيض منها ورقة ولا أطيب منها ثمرة فتناولت من ثمرتها فأکلتها فصارت نطفة في صلبي فلما هبطت الأرض واقعت خديجة فحملت بفاطمة فإذا أنا اشتقت إلي رائحة الجنة شممت ريح فاطمة يا حميراء إن فاطمة ليست کنساء الآدميين ولا تعتل کما يعتلون
بخاری شریف:رقم الحدیث6256
۲۔عن الزهري عن عروة عن عائشة قالت دخل رهطٌ من اليهود علي رسول الله (صلي الله عليه وسلم) فقالوا السام عليک قالت عائشة ففهمتهافقلت عليکم السام واللعنة قالت فقال رسول الله (صلي الله عليه وسلم) مهلاً يا عائشة إن الله يحب الرفق في الأمر کله فقلت يا رسول الله ألم تسمع ما قالوا قال رسول الله (صلي الله عليه وسلم) قد قلت وعليکم
فتاوی رحیمیہ(234/10)
’’سوال: میاں بیوی کو اس کا نام لے کر بلا سکتا ہے؟ اور بیوی اپنے میاں کو نام سے پکار سکتی ہے؟ میاں بیوی اپنے بچوں کے نام سے ایک دوسرے کو بلائیں تو کیا حکم ہے؟میاں بیوی اپنا کوئی خاص نام رکھ کر ایک دوسرے کو بلائے تو جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب : مرد اپنی بیوی کو ا س کے نام سے پکار سکتا ہے۔ لیکن عورت اپنے خاوند کو اس کے نام سے نہ پکارے کہ یہ بے ادبی اور گستاخی کی بنا پر مکروہ ہے ۔
يکره ان يدعوا الرجل اباه والمرأ ة زوجها باسمه (کذافي السراجية)
لہذا سردار وغیرہ تعظیمی الفاظ سے بلائے بل لابد من لفظ يفيد التعظيم کیا سیدی ونحوہ (شامی ج ص کتاب الحظر والا باحۃ فصل فی البیع )
کتاب الفتاوی(283/4)
سوال: کیا شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو نام لے کر پکار سکتے ہیں ؟اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو نام سے نہیں پکارتے ،بلکہ اپنے لڑکے یا لڑکی کی نسبت سے پکارتے ہیں۔
جواب: نام لے کر مخاطب کرنا خلاف ادب ہے اس لیے بیٹا اپنے باپ کو اور بیوی اپنے شوہر کو نام سے نہ پکارے فقہاء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ عالمگیری(362/1)میں ہے:
يکره ان يدعو الرجل اباه والمرأة زوجها باسمه۔
اگر غائبانہ نام سے ذکر کیا جائے تو حرج نہیں شوہر بیوی کو نام لے کر پکار سکتا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو نام لے کر مخاطب فرمایا۔البتہ بتقاضئہ حیاء لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے بال بچوں کی نسبت سے مخاطب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved