- فتوی نمبر: 3-22
- تاریخ: 14 نومبر 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات
میں ****میں رہتا ہوں۔ 1949 میں نے اپنے چچا ****کی لڑکی
سے شادی کی۔ جس سے 1950 میں لڑکا پیدا ہوا جو ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ بلکہ کئی مرتبہ پاگل بھی ہوگیا۔ اس زمانہ میں کراچی میں تھا۔ چنانچہ میں لڑکے کو کراچی کے مینٹل ہسپتال میں لے گیا۔ اور کانی عرصہ تک علاج کرواتا رہا۔ بعد ازاں نومبر 1967 میں میری لاہور تبدیلی ہوئی۔ چنانچہ لڑکے کو میں نے مینٹل ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا۔ لیکن وہاں بھی وہ صحت یاب نہ ہوسکا۔ بعد ازاں اسے میو ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا۔ جہاں وہ 1975 میں فوت ہو گیا۔ چنانچہ میں اسے اپنے گاؤں لے گیا۔ اور وہاں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
میرے چچا *** کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ اولاد نرینہ نہیں تھی۔ ان کی چھوٹی لڑکی ***خاتون میری منکوحہ تھی۔ جو جولائی 2009 میں بوجہ طویل علالت فوت ہو گئی۔ چچا کی تقریباً دو مربع زرعی زمین تھی جو انہوں نے اپنی دو لڑکیوں میں تقسیم کردی۔ میری اہلیہ ***خاتون کے حصے میں صرف 71 کنال زمین آئی جو ابھی تک تحصیل کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اور اس کی بڑی بہن بھی ابھی تک زندہ ہے۔ جس کے دو لڑکے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ اور دوسرا لڑکا اپنی زرعی زمین تقریباً ساڑھے چھ مربعے کاشت کرتا ہے۔ میری اہلیہ کے فوت ہونے کے بعد اب اس نے میری اہلیہ کی 71 کنال زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ قانونی اور شرعی لحاظ سے میری بھی اس زرعی زمین میں حصہ بنتا ہے۔ جس کا مجھے علم نہیں۔ میرے اپنے حصے کی زمین کو حاصل کرنے کے لیے مجھے آپ کی طرف سے فتویٰ کی ضرورت ہے۔ جو تحریری ہو تاکہ زمین حاصل کر لینے کے بعد کوئی دوسرا فریق قانونی چارہ جوئی نہ کرسکے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میری اس سلسلہ میں معاونت کریں۔ میں آپ کا تہ دل سے مشکور ہونگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں *** کی جائید اد کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ اس کے خاوند *** اور ایک حصہ اس کی بہن کو ملے گا ( یعنی ) ساڑھے پینتیس کنال خاوند کو اور ساڑھے پینتیس بہن کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
2 ***
خاوند بہن
1 1 فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved