- فتوی نمبر: 34-187
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
مختلف دینی اداروں میں طلباء نماز کے دوران خدمت کے لئے مقرر ہوتے ہیں وہ طلباء مدرسے کے احاطے میں جماعت سے نماز پڑھتے ہیں مغرب میں مسجد کی جماعت کے بعد جماعت ہوتی ہے اور بقیہ نمازوں میں مرکزی جماعت سے پہلے جماعت سے نماز ادا کرتے ہیں اس نماز میں کبھی دیگر طلباء یا خادم بھی شریک ہو جاتے ہیں۔نماز سے قبل جماعت کے ساتھ مسجد کے احاطے میں جماعت سے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ فقہاء نے بروز جمعہ معذورین کی گھروں میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کی اجازت نہیں دی ؟
وضاحت مطلوب :(1)طلباء مدرسے میں جماعت کرواتے ہیں یا مسجد کے احاطےمیں؟(2)طلباء کیا خدمت کرتے ہیں؟
جواب وضاحت:(1)مدرسے میں اور مدرسہ مسجد کے ساتھ متصل ہی واقع ہے ۔(2)جوتوں کی دیکھ بال اور صفوں کی درستگی وغیرہ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جوتوں کی دیکھ بال اور صفوں کی درستگی کوئی ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے مسجد کی جماعت چھوڑنا درست ہو تاہم اگر کسی جگہ کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے مسجد کی جماعت چھوڑنی پڑے تو شرعی مسجد کے علاوہ حصے میں یا مسجد کے ساتھ متصل مدرسے میں جماعت کروائی جاسکتی ہے باقی اس مسئلے کو جمعہ پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ جمعہ جامع الجماعات ہوتا ہے جبکہ مسجد کی جماعت جامع الجماعات نہیں ہوتی،فافترقا۔
منحۃ الخالق علی ہامش البحر الرائق (1/ 366)میں ہے:
ولا فرق في ذلك بين أن يكون في المسجد أو بيته حتى لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة .
وفي منحة الخالق: (قوله حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لا ينال الثواب ويكون بدعة ومكروها لكن قال في القنية اختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الفضلية وهو ظاهر مذهب الشافعي رحمه الله تعالى . اهـ.قلت ويظهر لي أن ما سيأتي عن الحلواني مبني على ما مر عنه في الأذان من وجوب الإجابة بالقدم وتقدم أن الظاهر خلافه فلذا صححوا خلاف ما قاله هنا أيضا.
درمختار (1/552)میں ہے:
ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجدمحلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
محیط برہانی (2/ 152) میں ہے:
وفي تسميتها جمعة دليل على أن المصر شرط فإنما تسمى جمعة؛ لأنها جامعة للجماعات حتى وجب بنداء الجماعات يوم الجمعة.
بدائع الصنائع (1/ 269)میں ہے:
يسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور إذنا عاما تحقيقا لمعنى الاسم.
شامی (2/ 157)میں ہے:
(وكره) تحريما (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظهر بجماعة في مصر) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع.
امداد الاحکام(1/513)میں ہے:
الجواب : قال في البحر وذكر فى غاية البيان معزيا إلى الاجناس أن تارك الجماعة يستوجب اساءة ولا تقبل شهادته اذا تركها استخفافا بذلك ومجانة أما اذا تركها سهوا او تركها بتاويل بان يكون الامام من اهل الأهواء او مخالفا لمذهب المقتدى لا يراعى مذهبه فلا يستوجب الاساءة وتقبل شهادته اه.
وفيه ايضا و ذكر الشارح وغيره ان الفاسق اذا تعذر منعه يصلى الجمعة خلفه وفي غيرها ينتقل الى مسجد آخر وعلل له فى المعراج بان في غير الجمعة يجد أماما غيره فقال في فتح القدير وعلى هذا فيكره الاقتداء به في الجمعة اذا تعددت اقامتها في المصر على قول محمد وهو المفتى به لانه بسبيل من التحول حينئذ أه.
وفى تعليق البحر لابن عابدين عن القنية اختلف العلماء في اقامتها في البيت والاصح انها كا قامتها في المسجد الا في الفضيلة وهو ظاهر مذهب الشافعى أه.عبارت اولی سے بدعت امام مسقط ِجماعت معلوم ہوتا ہے ، اور عبارت ثانیہ سے وجوب تحول بجانبِ امامِ دیگر مفہوم ہوتا ہے اور عبارت ثالثہ سے جماعتِ خانہ کا حکم مثل ِجماعتِ مسجد معلوم ہوتا ہے ، صرف فضیلت کا فرق ہے ، پس اگر عذر بدعت امام کی وجہ سے گھر میں جماعت اہل سنت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو عبارات مذکورہ سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved