• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خلع اور طلاق کے بدلے میں عوض کا مطالبہ

استفتاء

***ولد *** نے*** سے 19 جنوری 2007 کو نکاح کیا۔ تقریباً سو لوگوں کی موجودگی میں مسجد میں نکاح ہوا ، رخصتی نہیں ہوئی لیکن گھر آنا جانا اور ٹیلی فون پر بات اور E- mail  کے ذریعے  ان کے درمیان رابطہ رہا۔ کیونکہ نکاح کے ایک ماہ بعد***سے پوچھے  بغیر صرف اس کی ماں کو اطلاع کرکے  امریکہ چلی گئی کہ میں تین ماہ کے لیے پڑھنے جارہی ہوں۔*** سے اجازت بھی نہیں لی کہ میں جاؤں یا نہ جاؤں تقریباً تین ماہ کے بعد *** اور اس کی ماں کی طرف سے بے رخی شروع ہوگئی یہ سلسلہ ایک سال تک چلتارہا۔ پھر سال گزر جانے کے بعد عنیقہ کے ماں باپ نے یہ کہا کہ وہ آگے یہ نکاح نہیں چلانا چاہتی اور خلع چاہتی ہے۔ اس کے جواب میں*** نے کہا کہ میں اس رشتے کو ختم نہیں کرنا چاہتااور چاہتاہوں کہ*** خود میرے سامنے آکر بات کرے اور بتائے کہ میرا قصور کیاہے۔ اس کے جواب میں***کے ماں باپ نے کہا کہ آپ کا اور آپ کے ماں باپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ اچھے لوگ ہیں بس ہماری بیٹی اس رشتے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد میں نے تین ماہ کا وقفہ دیا کہ شاید***کو اپنی غلطی کا احساس ہو لیکن اس کے باوجود وہ خلع کا تقاضہ کرتی رہی اپنے ماں اور باپ کے ذریعے۔ اب کیا اس لڑکی کو طلاق دینے کے عوض کوئی مالی مطالبہ کرسکتاہوں اور کیا اس طرح کا مطالبہ میرے لیے شرع جائز ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خلع کے لفظ سے معاملہ کریں گے تو مہر ساقط ہوجائیگا، اور اگر طلاق کے لفظ  کے ساتھ معاملہ کریں گے تو مہر کے ساقط ہونے کا مطالبہ کرسکتےہیں، اگر کچھ اور خرچہ ہواہوتو اس کا مطالبہ کرسکتےہیں۔ اس سے بھی زائد رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ لیکن بہتر ہے کہ زائد رقم کا مطالبہ نہ کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved