- فتوی نمبر: 19-13
- تاریخ: 24 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میری ہمشیرہ خیر النساء کے نکاح کو سات سال ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی عائشہ ہے، جس کی عمر چھ سال ہے۔ میری ہمشیرہ کا خاوند عبد الستار نشہ کا عادی ہے، نشہ کے ٹیکے لگاتا ہے۔ گھر میں بہت کم رہتا ہے، کوئی آمدن کی صورت نہیں ہے۔ اپنی بیوی اور بیٹی کو مارتا ہے، اس کا علاج کرایا لیکن نشہ نہیں چھوڑا۔ ہماری ہمشیرہ ان سات سالوں میں ہمارے ہاں یعنی اپنے میکے اکثر اوقات رہتی رہی۔ ہماری ہمشیرہ ہمارے ہاں ہویا سسرال اس کے اخراجات ہم ہی برداشت کرتے رہے۔
ہم نے عدالت سے خلع کے لیے رجوع کیا، عدالت نے خاوند کو نوٹس بھیجا لیکن ایک بار بھی نہ حاضر ہوا، جس پر عدالت نے خلع کے آرڈر جاری کر دیے۔ بعد ازاں ہم نے یونین کونسل سے رجوع کیا۔ یہاں بھی نوٹس پر خاوند حاضر نہ ہوا۔ آخر کار یونین کونسل نے بھی خلع کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔
مندرجہ بالا صورت حال میں خلع شرعی طور پر مؤثر ہو گیا ہے یا نہیں؟ اگر خلع ہو گیا ہے تو عدت کب سے شروع ہو گی؟ مزید کوئی ہدایت؟
وضاحت مطلوب ہے کہ
سوال میں میں شوہر کے بیوی کو مارنے کا ذکر ہے اس کی تفصیل بتائیں۔
جواب وضاحت:
ایک مرتبہ شوہر نے خود کو نشے کے ٹیکے لگائے اور بیوی کو تھپڑ مارے،گھر کی چیزیں اٹھا کر بیچتا ہے اگر بیوی روکے تو مارتا ہے لیکن اس طرح کبھی نہیں مارا کہ نشان پڑ گئے ہوں یا زخم لگ گئے ہوں،البتہ شوہر کے بھائی نے ایک مرتبہ مارا تھا جس سے سر پھٹ گیا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا تعنت ( استطاعت کے باوجود نان نفقہ ادا نہ کرنا) اور تعنت کی بناء پر تنسیخ نکاح کے مؤثر ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
1: شوہر نان نفقہ پر قادر ہو ۔
2: شوہر نان نفقہ نہ دیتا ہو۔
3: بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف نہ کیا ہو۔
4: بیوی کی طرف سے کوئی ایسا نشوز (نافرمانی) نہ پایا گیا ہو جس کی وجہ سے وہ نفقہ کی حقدار نہ رہے۔
5: بیوی درخواست برائے فسخ نکاح نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے۔
6: جج اپنے فیصلے میں تعنت کو بنیاد بنائے۔
لیکن مذکورہ صورت میں درخواست برائے فسخ نکاح میں تعنت کی شرط نمبر (5) کو ملحوظ نہیں رکھا گیا یعنی بیوی نے نان نفقہ نہ دینے کی بناء پر فسخ نکاح کی درخواست نہیں دی بلکہ شوہر کی جانب تشدد کی بناء پر فسخ نکاح کی درخواست دی ہے جبکہ شوہر کی جانب سے ایسا تشدد نہیں پایا گیا جو فسخ نکاح کی بنیاد بن سکے لہذا مذکورہ صورت میں عدالتی خلع مؤثر نہیں ہوا اور نکاح قائم ہے۔
اگر عورت اس نکاح کو ختم کروانا چاہتی ہے تو اسی عدالت میں یا کسی اور میں نان نفقہ نہ دینے کی بناء پر دوبارہ درخواست برائے تنسیخ نکاح دی جائے۔
فتاوی عثمانی(2/462) میں ہے:
1۔ اگر کوئی شوہر ایسا ہو جو باوجود استطاعت کے اپنی بیوی کو نان و نفقہ نہیں دیتا اور عورت کے پاس نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو اور شوہر طلاق یا خلع کے لئے بھی تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ مالکی مذہب کے مطابق اس شوہر سے عدالت کے ذریعے خلاصی حاصل کر سکتی ہے۔
2۔خلاصی حاصل کرنے کے لئے عورت اپنا مقدمہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ فلاں کی بیوی ہے اور وہ باوجود استطاعت کے اس کو نان و نفقہ نہیں دیتا اور نہ اس کے پاس نان و نفقہ کا کوئی انتظام ہےجس سے اس کو سخت ضر ر لاحق ہے اور وہ اس وجہ سے اس کی زوجیت سے نکلنا چاہتی ہے۔
3۔عورت "فلاں” کے ساتھ نکاح اور اس کا مذکورہ رویہ گواہوں سے ثابت کرے اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں یا گواہ ہوں لیکن اس نے پیش نہ کئے تو اگر شوہر عدالت میں حاضر ہو تو اس سے قسم لی جائے گی، اگر اس نے قسم کھانے سے انکار کیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ عورت کا دعوی درست ہے، اب جج شوہر سے کہے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو یا طلاق/خلع دو ورنہ ہم تفریق کر دیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی کوئی مہلت دیئے بغیر اسی وقت بیوی پر طلاق واقع کر دے۔
4۔لیکن شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر نہ ہو، جیسا کہ آج کل عموما ایسا ہی ہے، اور عدالت کے بار بار نوٹس اور سمن جاری کرنے اور شوہر نوٹس اور سمن کے بارے میں مطلع ہونے کے باوجود عدالت حاضر نہ ہوتا ہو تو اگر بیوی کے پاس گواہ موجود ہوں اور وہ پیش بھی کرے تو جج ان کی گواہوں کی بنیاد پر بیوی کے حق میں فسخ نکاح فیصلہ جاری کرے،اور اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں، یا ہوں لیکن وہ پیش نہ کرے تو شوہر کا بار بار بلانے کے باوجود عدالت میں حاضر نہ ہونا اس کی طرف سے قسم سے انکار (نکول) سمجھا جائے گا اور اس کی بنیاد پر عدالت شوہر غائب کے خلاف اور بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5۔بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ درخواست برائے فسخ نکاح نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے ، اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو بنیاد بنائے،خلع کا طریقہ کار ہرگز اختیار نہ کرے،اس لئے کہ یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو یعنی شوہر کا "تعنت”ثابت ہو رہا ہو البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے بشرطیکہ یہ فیصلہ مذکورہ بالا شرائط اور طریقہ کار کے مطابق ہو۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved